Thursday, June 16, 2016
کرائسٹ چرچ، آک لینڈ، نندی
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو پچاسی
جون بارہ،
دو ہزار سولہ
کرائسٹ
چرچ کے بڑے زلزلے کو آئے چار سال سے اوپر ہوگئے تھے مگر مرکز شہر میں تعمیراتی
کام زور و شور سے جاری نظر آتا تھا۔ لگتا تھا کہ کرائسٹ چرچ نے تہیہ کیا تھا کہ
جو عمارتیں زلزلے میں تباہ ہوئی تھیں اس بار ان عمارتوں سے اونچی عمارتیں بنانا
تھیں اور ساتھ ہی ان نئی عمارتوں کی تیاری زلزلے کے جھٹکوں کو مدنظر کرتے ہوئے
کرنی تھی۔
سنہ ۲۰۰۵
کے کشمیر کے ہولناک زلزلے کے بعد میرا جانا بالاکوٹ ہوا تھا۔ میں جب وہاں پہنچا تو
قصبے میں ملبے کو اٹھانے کا کام جاری تھا اور ایک آدھ عمارتیں ہی کھڑی نظر آتی
تھیں۔ ایسی ہی ایک ایستادہ عمارت کی طرف اشارہ کر کے ایک مقامی آدمی نے مجھے
بتایا تھا کہ اس عمارت کی ایک دکان میں ایک نائی ہے جس نے لوگوں کی داڑھی کاٹنے سے
انکار کیا ہوا ہے۔ اس آدمی کا کہنا تھا
کہ اس نائی کی اسی نیکی کی وجہ سے وہ عمارت زلزلے کی تباہی سے بچ گئی تھی۔ میں اس
شخص کی یہ بات سن کر سوچتا رہا کہ سائنس کی دھونی سے ہمارے لوگوں کے فرسودہ
اعتقادات نکالنے میں ابھی کتنا وقت اور لگے گا۔
اب نیوزی لینڈ کا سفر ختم ہوچکا
تھا۔ ہمیں کرائسٹ چرچ سے علی الصبح آک لینڈ کے لیے روانہ ہونا تھی۔ اور ہوائی
جہاز پکڑنے سے پہلے کرائے کی گاڑی واپس کرنا تھی۔ جس جگہ سے کرائے کی گاڑی لی تھی
وہ دفتر ہوائی اڈے سے دو میل دور تھا۔ ہم کرائسٹ چرچ دن کی روشنی میں پہنچے تھے
اور اس وقت ہوائی اڈے سے کرائے کی گاڑی کے دفتر تک جانے کے لیے شٹل موجود تھی مگر
پو پھٹنے سے پہلے یہ شٹل دستیاب نہ تھی۔ منہ اندھیرے کرائے کی گاڑی واپس کرنے کے
بعد ہوائی اڈے کیسے پہنچیں؟ ایک ترکیب یہ تھی کہ کسی ٹیکسی سروس سے ایک رات پہلے
بات کی جائے اور پھر صبح گاڑی واپس کرنے کے بعد اس جگہ ٹیکسی کا انتظار کیا جائے۔
اور اگر رات کو بات کرنے کے باوجود ٹیکسی والا صحیح وقت پہ صحیح جگہ نہ پہنچا تو
کیا ہوگا؟ بات یہ سمجھ میں آئی کہ دو میل کی کیا بات ہے، گاڑی واپس کر کے ہم پیدل
ہوائی اڈے چلےجائیں گے۔ اس طرح ٹیکسی کے پیسے یعنی بیس ڈالر بھی بچ جائیں گے۔ بات
ہماری سمجھ میں تو آگئی مگر دوسرے مسافروں کے دل کو نہ لگی۔ تو پھر سویرے ایسا ہی
ہوا۔ دوسرے مسافروں کو سامان سمیت ہوائی اڈے پہ چھوڑنے کے بعد ہم گاڑی لے کر پلٹے
اور کرائے کی گاڑی کے دفتر پہنچے۔ وہاں کرائے کی گاڑی مقررہ جگہ کھڑی کی اور چابی
مخصوص ڈبے میں ڈالنے کے بعد ہوائی اڈے کی طرف پیدل چلنا شروع ہوئے۔ اس دفتر سے
ہوائی اڈے تک کا راستہ ہم نے انٹرنیٹ پہ دیکھ لیا تھا۔ رات کے اس پہر ہوائی اڈے
جانے والی سڑک سنسان تھی۔ کافی دیر بعد کوئی گاڑی وہاں سے گزر جاتی تھی۔ ہم اس
سناٹے میں ہوائی اڈے کی طرف چلتے رہے۔ اس راستے میں ایک ہائی وے بھی پڑتی تھی۔
ہائی وے پہ پہنچ کر کچھ دیر انتظار کیا اور پھر جب دور دور تک کوئی گاڑی نظر نہ
آئی تو بھاگ کر ہائی وے پار کی۔ اب ہم ہوائی اڈے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ وہاں اچھی
روشنی تھی۔ ہم ضد آرکٹک مرکز کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہوائی اڈے کی عمارت میں داخل
ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے فتح کا زوردار نعرہ لگایا۔ ہم بیس ڈالر بچانے میں کامیاب
ہوگئے تھے۔
ہوائی جہاز کی ایک چھلانگ سے ہم
کرائسٹ
چرچ سے آک لینڈ پہنچے اور وہاں پہنچ کر ہمارا مقامی سفر ختم ہوگیا۔ آک لینڈ میں
اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔
نندی
پہنچے تو ہم ایک بار پھر اپنے بچپن کے موسم میں پہنچ گئے تھے۔ فجی میں موسم گرم
تھا۔ خط استوا سے قربت کا گرم موسم تو ہمیں برازیل میں بھی ملتا ہے۔ فجی کی خاص
بات یہ تھی کہ انگریزوں کے پھیکے سیٹھے کھانوں سے ہماری جان چھٹ چکی تھی؛ اب ہمیں
اپنی طرف کے مرچ مصالحوں والے کھانے دستیاب تھے۔
Labels: Christchurch to Auckland to Nadi, New Zealand travelogue, Urdu