Thursday, May 26, 2016
کرائسٹ چرچ فضائیہ عجائب گھر، شہباز تاثیر، جیسی ڈوگارڈ
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو بیاسی
مئی بیس،
دو ہزار سولہ
کرائسٹ چرچ
فضائیہ عجائب گھر، شہباز تاثیر، جیسی ڈوگارڈ
علی حسن
سمندطور
میں نے اس سے پوچھا تھا کہ تم پاکستان میں کیوں نہیں رہتے؟ اس نے کہا کہ اگر
معاملے کو جذباتیت سے نہ دیکھا جائے، اگر ممالک کو انسانوں کی ماں دھرتی نہ سمجھا
جائے بلکہ ایسی بسیں سمجھا جائے جو اپنے مسافروں کو کہیں لے کر جارہی ہیں تو بات
زیادہ آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے۔ میں نے کہا چلو یوں ہی مان لیتے ہیں۔ اس نے
کہا کہ پھر تو بات آسان ہے۔ میں جب پاکستان میں رہتا تھا تو پاکستان کو ایک ایسی
بس کے طور پہ دیکھتا تھا جس کی سمت پہ مجھے کوئی اختیار نہ تھا۔ میں جہاں اس بس کو
جاتا دیکھنا چاہتا تھا یہ اس کے مخالف سمت جارہی ہوتی تھی، اور پھر کچھ کچھ دیر
بعد یہ بس کھڑی ہوجاتی تھی اور چلنا بالکل بند کردیتی تھی۔ تو میں پھر ایسی بس کا
مسافر کیوں بنوں؟ میں اگر اس بس سے اتر کر کسی اور بس میں سوار ہوگیا تو کیا برا
کیا؟ اس نے اپنا استدلال ایسی پختہ معروضی بنیاد پہ کھڑا کیا تھا جس میں میری مرضی
شامل تھی۔ میرے پاس اس سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔
میں اسی نوعیت کا سوال شہباز تاثیر سے کرتا ہوں۔ پہلے تمھارے انتہائی قابل باپ
کو مارا گیا؛ پھر تمھیں اغوا کر کے تم پہ تشدد کیا گیا اور تمھیں پانچ سال قید میں
رکھا گیا، اب آخر تم وہاں اور کتنا ذلیل و خوار ہونا چاہتے ہو؟ مگر یہ لڑکا نہیں
مانتا۔ یہ کہتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کے اور اس کے باپ کے ساتھ یہ سب کیا، یہ ملک
ان لوگوں کے حساب سے نہیں چلنا چاہیے۔ یہ ملک دراصل شہباز تاثیر کا اور اس کے ہم خیال لوگوں کا ہے،
اور ایک دن ان ہم خیال لوگوں کی جماعت اپنے مخالف گروہ کو ہرانے میں کامیاب ہوجائے
گی۔ ایک دن یہ بس اس سمت میں چلنے لگے گی جس طرف شہباز تاثیر اور اس کے ہم خیال
لوگ اسے لے کر جانا چاہتے ہیں۔
میں لکھنے بیٹھا تھا کرائسٹ چرچ
کے فضائیہ عجائب گھر کے بارے میں، مگر ذہن دوڑتے دوڑتے دوسری طرف نکل گیا۔ کرائسٹ
چرچ کے اس عجائب گھر میں ایک نمائش دوسری جنگ عظیم کے کی وی جنگی قیدیوں اور ان کی
کامیاب اور ناکام فرار کی داستانوں سے متعلق تھی۔ اس نمائش میں ایک عجیب ماحول
تھا۔ وہاں روشنی دھیمی تھی اور کچھ کچھ دیر بعد خطرے کا سائرن بجتا تھا۔ آگے ایک
جگہ چالیس کی دہائی کی مقبول موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ وہ سب دراصل جنگ کا کلچر
تھا۔ جنگ کا کلچر؟ ہاں جنگ کا بھی ایک کلچر ہوتا ہے۔ خطرے کا سائرن، آسمان میں
منڈلاتے دشمن کے ہوائی جہاز، بمباری، راشن، اور اس وقت کی خاص موسیقی۔ یہ اور
دوسری چیزیں وہ ماحول بناتی ہیں جسے جنگ کا کلچر کہا جاسکتا ہے۔ اس نمائش میں اسی
کلچر کو یاد کیا جارہا تھا۔ وہ سپاہی جنہوں نے اپنی عمر کے بہترین سال جنگ کے
دوران گزارے ہوں شاید اسی طرح جنگ کے کلچر میں کھو گئے ہوں گے۔ وہ شاید وہیں واپس
پلٹ کر جانا چاہتے ہوں۔ وہ جنگ تھی۔ اس میں قتل و غارت گری تھی مگر وہ وقت ان کی
عمر کے بہترین حصے کا رفیق تھا۔ شاید وہ اپنی زندگی کا بہترین حصہ واپس دیکھنا
چاہتے ہوں، شاید وہ اس مخصوص وقت کے رفیق کو واپس دیکھنا چاہتے ہوں۔ شاید یہ عمل
بھی اسٹاک ہوم سنڈرم سے ملتی جلتی کوئی چیز ہے۔
ایسی فلمیں بھی تو ہوتی ہیں جن
کی تیاری کے لیے بہت بڑے بڑے سیٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ فلم بندی کا کام ان سیٹ پہ
بہت عرصے تک چلتا رہتا ہے۔ اس سیٹ سے بندھے کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی کا
بڑا حصہ وہی سیٹ ہوتا ہے۔ پھر ایک روز فلمبندی مکمل ہوجاتی ہے۔ اب اس سیٹ کو
خیرآباد کہنے کی ضرورت ہے مگر اس سیٹ سے بندھے لوگ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اسی
طرح اس سیٹ سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔
شہباز تاثیر کی قید کےدوران سب سے زیادہ دلچسپ واقعات اس متعلق ہیں جب شہباز
کو قید میں رکھنے والوں پہ ڈرون سے حملے ہوئے یا ہوائی جہازوں کے ذریعے ان پہ
بمباری کی گئی۔ ایسے موقعوں پہ شہباز تاثیر کے دوست وہ نہیں تھے جو شہباز تاثیر کو
قید میں رکھنے والوں پہ حملہ آور تھے۔ ایسے موقعوں پہ شہباز تاثیر اور اس کے صیاد
ایک کشتی کے مسافر تھے۔ ان لوگوں کو اپنی جان حملہ آوروں سے بچانی تھی۔ اسی
معاملے کی ایک دوسری شکل کو شاعر نے صیاد سے مانوس ہونا کہا ہے۔
اور پھر صیاد سے انسیت یوں بھی ہوتی ہے کہ واقعی رہائی کا دل نہیں چاہتا۔ اس
حقیقت کا بہترین بیان میں نے جیسی ڈوگارڈ کی کتاب میں پڑھا تھا۔ ڈوگارڈ انیس سال
قید میں رہی۔ ان انیس سالوں میں اس کا نام بدل کر ایلیسا کردیا گیا۔ جب پولیس نے
مجرم فلپ گریڈو کو گرفتار کیا اور انہیں شک ہوا کہ یہ عورت جو فلپ کے ساتھ ہے اور
اپنا نام ایلیسا بتا رہی ہے، یقینا جھوٹ بول رہی ہے تو انہوں نے اس سے اس کا اصل
نام پوچھا۔ جیسی بہت دیر تک سوچتی رہی۔ اس کی قید کو انیس سال ہوچکے تھے۔ جب اسے
اغوا کیا گیا تھا تو اس کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ وہ آزادی کی زندگی سے اتنی
مانوس نہ تھی جتنی اپنے صیاد سے۔ اس وقت فلپ اور وہ ایک طرف تھے، اور پولیس دوسری
طرف۔ وہ دیر تک پولیس سے بھڑتی رہی اور فلپ کی طرف داری کرتی رہی۔ مگر پولیس والوں
اور والیوں نے بھی تحمل کا دامن نہ چھوڑا۔ وہ جیسی کو سمجھاتے رہے کہ وہ سچ سچ بتا
دے کہ کیا معاملہ تھا، فلپ اس کا کیا لگتا تھا۔ وہ کہتے رہے کہ سچ کی طاقت جھوٹ سے
بہت زیادہ ہے، تم سچ بول دو، سارے معاملات خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ بالاخر جیسی
نے سچ اگل دیا۔ وہ منہ سے نہ بولی مگر اس نے ایک کاغذ پہ اپنا اصل نام لکھ دیا:
جیسی ڈوگارڈ۔ اس کا یہ لکھنا تھا کہ پورے امریکہ میں بھونچال آگیا۔ پورے ملک میں
ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات میں یہی خبر
تھی کہ انیس سال پہلے اغوا ہونے والی ایک لڑکی بازیاب ہوگئی تھی۔ وہ تیس سالہ عورت
اپنےصیاد سے انیس سالہ انسیت کو ٹھکرانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
Labels: Air Force Museum in Christchurch, Jaycee Dugard, Shahbaz Taseer