Thursday, February 04, 2016

 

سنہ دو ہزار سولہ کا کراچی





۔
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھیاسٹھ

جنوری اکتیس، دو ہزار سولہ

سنہ دو ہزار سولہ کا کراچی


اس دفعہ سفرنامے کا ناغہ ہے۔ میں چند دن پہلے کراچی سے واپس پلٹا ہوں۔ پاکستان کا ہر سفر آپ کو یوں جھنجھوڑ دیتا ہے کہ آپ اس پہ لکھے بغیر رہ نہیں سکتے۔
مجھے فیس بک پہ ایسے لوگ ملتے ہیں جو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں کہ پاکستان ایک نہایت خوب صورت ملک ہے۔ یہ لوگ مجھے پاکستان میں شمالی علاقہ جات کی تصاویر دکھاتے ہیں۔ ان بے وقوفوں کو کون سمجھائے کہ دنیا بھر میں برف پوش پہاڑ ایک جیسی خوبصورتی رکھتے ہیں۔ ملک پہاڑوں اور دریائوں سے نہیں لوگوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ اور اس وقت کا پاکستان اپنے کم علم لوگوں کی وجہ سے انتہائی بدصورت ملک ہے۔
پاکستان اس پھوہڑ ماں کی طرح ہے جس نے اپنے بچوں کو پڑھانے کا انتظام نہیں کیا۔ عمومی تعلیم کا وہ فقدان قدم قدم پہ نظر آتا ہے۔
طوفان بدتمیزی دبئی سے کراچی جانے والی پرواز ہی سے شروع ہوگیا۔ جہاز میں چڑھنے والی قطار میں مجھے مستقل دھکے لگ رہے تھے۔ ایک دفعہ تو میں ایک طرف ہوگیا اور اپنے سے پیچھے والے شخص سے کہا کہ، آپ پہلے چلے جائیں، کہیں آپ کا جہاز نہ نکل جائے۔ پھر جہاز میں چڑھا تو ایک حجابی خاتون کو اپنی نشست پہ براجمان پایا۔ انہیں بتایا کہ وہ میری سیٹ پہ بیٹھی تھیں تو پہلے تو انہوں نے بحث کی کہ وہ اپنی جگہ پہ ٹھیک بیٹھی تھیں، پھر جب انہوں نے اپنا بورڈنگ پاس دیکھا تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میں پیچھے سے آنے والے لوگوں کو راستہ دینے کے لیے تھوڑا سا آگے بڑھ گیا۔ چند منٹ بعد واپس پلٹا تو خاتون کو اب تک وہیں موجود پایا۔ میں نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ، اچھا تو آپ یہاں بیٹھیں گے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے بے اختیار کہا، آپ کا خیال تھا کہ میں کھڑا ہوکر جائوں گا۔ اس پہ وہ شدید غصے میں آگئیں اور اول فول بکتی وہاں سے روانہ ہوئیں۔
کراچی پہنچنے پہ ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی پاکستان اپنی بے ہنگم ٹریفک کے ساتھ آپ کا بھرپور استقبال کرتا ہے۔ چوڑی سڑکوں پہ گنتی کی چند گاڑیاں ہیں مگر وہ اس قدر بدتمیزی سے چل رہی ہیں کہ سڑک تنگ نظر آتی ہے۔
پھر شہر کو دیکھیے تو پورا شہر کوڑے کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ ہر جگہ بدبو ہے۔
بے اختیار خیال آیا کہ پاکستان کی ہر وہ جگہ خوب صورت ہے جہاں پاکستانی نہ پہنچے ہوں یا جہاں ان لوگوں کی دسترس کم سے کم ہو۔
کراچی کے مہنگے سے مہنگے علاقے میں چلے جائیے آپ کو قدم قدم پہ کوڑا ملے گا۔ لوگ کروڑوں کے گھروں میں رہتے ہیں اور اپنے گھروں میں صفائی ستھرائی کا انتظام بھی کرتے ہیں مگر ان چمکتے دمکتے گھروں سے کچھ ہی فاصلے پہ آپ کو کچرا جلتا نظر آئے گا۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر میں کوڑا اٹھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ لوگ اس گندگی میں رہنے کی وجہ سے اور جلتے کوڑے کے دھوئیں سے مستقل بیمار رہتے ہیں۔
میری موجودگی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کا دورہ کررہی تھی جہاں اسے مستقل شکست کا سامنا تھا۔ مجھے ان بچوں پہ ترس آیا۔ میں نے سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے کھلاڑی تھکے ہوئے ہیں، جلتے کوڑے کے دھوئیں میں سانس لے کر بڑے ہونے والے یہ بچے دنیا کے دوسرے صحت مند کھلاڑیوں سے مقابلہ نہیں کرپارہے؟
کراچی میرا شہر ہے مگر یہ وہ کراچی نہیں ہے جو میں نے چھوڑا تھا۔ میرا کراچی محض چار پانچ لاکھ کا شہر تھا۔ میرے کراچی میں بھی کوڑے کا مسئلہ تھا مگر اس کوڑے میں پلاسٹک شامل نہ تھا۔
ترقی یافتہ دنیا میں واپسی۔
کل رات میں ٹہلنے کے لیے باہر نکلا تو خوشگوار خنک ہوا نے میرا استقبال کیا۔ سڑک کے ساتھ دور تک درخت لگے تھے۔ یہ ہوا ان ہی درختوں سے چھن کر آرہی تھی۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ درخت میں نے نہیں لگائے۔ جن لوگوں نے یہ درخت لگائے ہیں ان کا احسان ہے کہ انہوں نے مجھے اس جگہ رہ جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
میں سڑک کے ساتھ بنی چوڑی فٹ پاتھ پہ چل رہا تھا۔ سڑک پہ ٹریفک تھی مگر ساری گاڑیاں بغیر ہارن بجائے اپنی اپنی لین میں چل رہی تھیں۔ اور مجھے معلوم تھا کہ میں جس دم سڑک پار کرنے کے لیے کراس واک پہ قدم رکھوں گا ساری گاڑیاں ایک دم رک جائیں گی۔ مجھے علاقے کے سب سے بڑے غنڈے یعنی حکومت وقت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ قانون میرے ساتھ تھا۔ میں ایسی جگہ موجود تھا جہاں بہت پہلے قانون کی بالادستی کا معاملہ طے ہوچکا ہے۔
ترقی پذیر ممالک سے جو لوگ مغربی دنیا آئے ہیں وہ یقینا اس معاشرے کو چلانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ سب لوگ اس معاشرے کے لیے بے حد مفید ہیں۔ مگر مغربی دنیا مشرق وسطی کے ممالک سے بہت مختلف ہے۔ یہاں کام کرنے والوں کی کال نہیں ہے۔ ہمارے بغیر بھی یہ ممالک اپنا گزارا کرسکتے تھے۔ یہ ہمیں دھتکار سکتے تھے۔ یہ کہہ سکتے تھے کہ تم گندگی میں رہنے والے لوگو، تم ادھر ہی رہو۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس ملک  کا احسان ہے کہ اس نے مجھے جگہ دی۔ میں اس احسان کا بدلہ کراچی کے قریب ایک ایسی فعال بستی بنا کر اتارنا چاہتا ہوں جو منظم ہو اور جو نئے لوگوں کو تعلیم دینے کے بعد اپنے اندر جذب کرسکے۔


Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?