Monday, February 22, 2016
اسرار حسن
میرے وطن کراچی کا موسم کچھ ایسا ہے کہ فروری
کے وسط ہی سے موسم گرمی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ دن میں دھوپ ہو تو دن خاصا گرم
ہوجاتا ہے؛ صرف رات کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ابھی موسم سرما میں ہیں۔ وہ بھی
فروری کا ایسا ہی ایک دن تھا۔ فروری کا ایک ایسا دن جس کی حیثیت اب میرے ماضی کی
سب سے اداس تاریخ کی ہے۔ فروری کے موسم کا وہ کمرہ، لوگوں کے اترے ہوئے چہرے، اور
بہت ہلکے سروں میں اٹھتی مہدی حسن کی آواز ہمیشہ کے لیے میرے احساس میں موت کے
منظر کے قوی اجزا بن گئے ہیں کیونکہ اس کمرے میں کچھ ہی گھنٹوں میں ایک زندگی ختم
ہونے جارہی تھی۔
شام ہوچلی تھی۔ سمندر سے آنے والی ہوا نے
ماحول کو خوشگوار بنا دیا تھا مگر چچا نے ہاتھ کے اشارے سے پنکھا بند کرنے کو کہا؛
ایک چادر اوڑھنے کے باوجود انہیں سردی لگ رہی تھی۔ پنکھا بند کردیا گیا۔ خاموشی
اور گہری ہوگئی۔ شاید وہ آخری موقع تھا جب چچا نے شعوری طور پہ ہم سے کسی طرح بات
کی تھی۔ اس سے پہلے جب میں ان کے پاس پہنچا تھا تو انہوں نے آنکھیں کھول کر مجھے
دیکھا تھا اور ہلکا سا مسکرائے تھے۔ میں کافی دیر وہاں بیٹھا رہا اور پھر بھاری دل
کے ساتھ اٹھ گیا۔ چچا کی، موت سے آخری جھڑپ شروع ہوچکی تھی۔ جھڑپ کچھ اس طرح جاری
تھی کہ چچا غنودگی میں جاتے اور کچھ دیر میں واپس ہوش کی طرف پلٹ آتے۔ یہ سلسلہ
ساری رات چلا۔ صبح کا نہ جانے وہ کونسا پل تھا جب چچا کی غنودگی گہری ہوتی گئی اور
بالاخر وہ ہمیشہ کے لیے موت کے آغوش میں پہنچ گئے۔ ایک زندہ دل اور قہقہوں بھری
زندگی اپنے اختتام کو پہنچی۔ میری زندگی کی کتاب کا ایک بہت خوشگوار باب ختم ہوا۔
Labels: Asrar Hasan banker, BCCI