Thursday, January 07, 2016

 

کالا پانی آسٹریلیا




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو باسٹھ

جنوری دو، دو ہزار سولہ


کالا پانی آسٹریلیا



انگلستان ایک چھوٹا جزیرہ ہے۔ شاید اسی چھوٹی جگہ میں نمو پانے والی نفسیات کے دم سے انگریزوں کا شوق رہا ہے کہ معاشرے کے جرائم پیشہ لوگوں کو جزیرے سے دور پہنچا دیا جائے۔ وہ قیدیوں کو دور دراز کے علاقوں کی طرف روانہ کردیتے تھے۔ گو کہ برصغیر انگلستان کے مقابلے میں بڑی جگہ ہے مگر یہاں بھی انگریز اپنی پرانی ترکیب سے چلتے رہے۔ انگریز ہمارے علاقے کے قیدیوں کو خلیج بنگال سے مشرق میں واقع جزائر کی طرف روانہ کردیتے تھے۔ انڈومن اور نکوبار کے وہ جزائر کالا پانی کہلاتے تھے اور یہ اصطلاح لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جب تک انگلستان کی امریکی نوآبادیوں سے بنی رہی، انگریز مجرموں کو امریکہ بھیجا جاتا رہا۔ جب امریکی نوآبادیوں نے انگلستان کو آنکھیں دکھائیں اور جزیرہ مادر کے سیاسی تسلط سے آزاد ہوگئیں تو انگریزقیدیوں کو آسٹریلیا بھیجا جانے لگا۔ اور اسی وجہ سے آج بہت بڑی تعداد میں ایسے آسٹریلوی ہیں جن کے آباواجداد کو جرائم پیشہ ہونے کی وجہ سے جزیرہ انگلستان سے نکال کر آسٹریلیا پہنچایا گیا تھا۔ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اپنی جگہ جم کر رہنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت سر پہ نہ پڑے تو لوگ اپنی جائے پیدائش کے آس پاس ہی عمر گزار دیتے ہیں۔ وہ مہم جو ہوتے ہیں جنہیں سفر کے خطرات میں کودنا اچھا لگتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی نئی جگہ کو بسانے کے لیے وہاں قیدیوں کو منتقل کرنا اچھا حل ہے۔ نئی جگہ بسانے کا عمل کسی طرح بھی شروع ہوا ہو اور کسی اور طرح پروان چڑھا ہو، ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ انگلستان جیسے چھوٹے سے جزیرے کے لوگ اپنی اصل جگہ سے نکل کر تین مختلف جگہوں یعنی شمالی امریکہ، جنوبی افریقہ، اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں چھا گئے۔ انگلستان کے یہ بچے الگ جگہوں میں رہتے ہیں مگر اندر سے یہ بالکل ایک جیسے ہیں۔ اب یہ لوگ اپنی جگہ سے نکل کر دوسرے تین مقامات پہ جائیں تو وہاں بسنے والے اپنے رشتہ داروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کی علیحدہ انگریزی بولی پہ خوب حیران ہوتے ہیں۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ صرف چند صدیوں کے فاصلے سے زبان کیسے بدل جاتی ہے۔ ہم اولورو میں قیام کے دوران شمالی امریکہ کے سیاحوں کو ان کی جدا بولی کی وجہ سے پہچان سکتے تھے۔
اولورو میں ہمارا دوسرا دن بہت مصروف گزرنا تھا۔ سب سے پہلے ہمیں وادی باد، ویلی آف دی ونڈز، جانا تھا اور پھر ایلس اسپرنگس پلٹتے ہوئے کنگز کینین نامی سیاحتی مقام بھی دیکھنا تھا۔ اور ہمیں یہ سارا سفر یوں کرنا تھا کہ اندھیرا ہونے سے پہلے ایلس اسپرنگس پہنچ جائیں۔
انگریز آسٹریلیا میں جنوبی ساحل کے ساتھ بسے؛ اس پٹی کا موسم انگلستان کے موسم جیسا ہے۔ یورپ سے آنے والے یہ لوگ شمال کے علاقوں کو جھاڑ جھنکاڑ کا علاقہ یا آئوٹ بیک کہتے ہیں۔ لال مرکز اس جھاڑ جھنکاڑ کے علاقے یا پچھواڑے کی سب سے اہم جگہ ہے۔ آسٹریلیا میں جتنے لوگ بستے ہیں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں کینگرو ہیں۔ کینگرو رات کے وقت متحرک ہوتے ہیں اور کودتے کودتے شاہراہوں پہ چلے آتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے رات کے وقت پچھواڑے میں ڈرائیونگ خطرناک ہے۔ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اچانک ایک کینگرو کو سڑک پار کرنے کا خیال آئے گا اور آپ کی گاڑی اس کینگرو سے ٹکرا جائے گی۔ اسی وجہ سے کرائے کی گاڑی حاصل کرتے وقت ہم سے معاہدے کی اس شق پہ دستخط کرائے گئے تھے جس کی رو سے ہم صرف دن کی روشنی میں شہری علاقوں سے باہر گاڑی چلا سکتے تھے۔
وادی باد اسی نیشنل پارک کا حصہ ہے جس میں ایرز راک واقع ہے۔ وادی باد پہنچنے پہ ہم نے وہاں موجود چٹانوں کو ایرز راک کی ساخت سے بہت مختلف ساخت کا نہ پایا۔ ہم وہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد واپس ایرز راک آگئے۔ ہم نے ایک دن پہلے اس مشہور چٹان کو جھٹپٹے میں دیکھا تھا، اب اسے دن کی روشنی میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم ایرز راک کا طواف کرنے والی پگڈنڈی پہ چل دیے۔ وہاں جگہ جگہ لگے سائن کی مدد سے بتایا گیا تھا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے اس چٹان میں موجود غاروں میں کس طرح اپنے بچوں کو شکار کرنے کی تربیت دیتے تھے اور چٹان کے کس حصے کو مقدس خیال کرتے تھے۔ تعجب یہ تھا کہ جن لوگوں کے نزدیک وہ چٹان مقدس تھی وہ اس مقدس جگہ پہ موجود نہ تھے۔ دراصل وہ چٹان مقامی لوگوں کی پاکیزہ جگہ سے بڑھ کر تقدیس کی ایک اونچی سیڑھی چڑھ گئی تھی۔ اب وہ جگہ ایک مندر بن چکی تھی، دھن دولت کا مندر۔ اس چٹان سے اب آسٹریلیا کا، اس کے سیاحتی اداروں کا، اور بہت سے نجی کاروبار کا روزگار وابستہ ہے۔ وہاں بھلا افلاس شدہ مقامی لوگوں کا کیا کام؟
ایرز راک کا تسلی بخش معائنہ کرنے کے بعد ہم کنگز کینین کی طرف چل پڑے۔ کنگز کینین پہ بھی اسی قماش کی چٹانیں نظر آئیں۔ وہاں بھی کثیر تعداد میں سیاح موجود تھے جو ان چٹانوں کے ساتھ بنی پگڈنڈیوں پہ چلے جارہے تھے۔ اگر اس رات ہمارا قیام کنگز کینین سے ملحق ریزارٹ میں ہوتا تو ہم بھی ایسا ہی کرتے، مگر ہمیں واپس ایلس اسپرنگس جانا تھا۔ ہم کنگز کینین کی ایک پگڈنڈی پہ کچھ دور چلے اور پھر واپس اپنی گاڑی پہ آگئے۔
ہماری واپسی ایلس اسپرنگس کی طرف ہوئی تو سورج ڈھلنا شروع ہوچکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں اندھیرا ہوگیا۔ اب کینگرو نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ ہم احتیاط سے گاڑی چلا رہے تھے۔ اسی راستے میں مردہ اور زخمی کینگرو بھی نظر آئے جو کسی گاڑی یا ٹرک سے ٹکرانے کے بعد سڑک کے کنارے پڑے تھے۔ کینگرو ایک خاندان کی صورت میں رہتے ہیں۔ ایک کینگرو مر جائے تو اس موت کا غم منانے کے لیے پورا کنبہ جمع ہوجاتا ہے۔ اس شاہ راہ پہ تازہ ہلاک ہوجانے والے کینگرو کی یہی نشانی تھی کہ اس کے چاروں طرف بہت سے کینگرو جمع نظر آتے تھے۔ ایلس اسپرنگس پہنچنے سے پہلے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہمارے سامنے ایک کینگرو نے پھدک پھدک کر سڑک پار کی مگر ہر دفعہ ہماری بچت ہوگئی۔ بہت لمبے سفر کے بعد جب دور ایلس اسپرنگس کی روشنی نظر آئی تو جان میں جان آئی۔ ہم مقدس چٹان کی نئی حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد واپس اپنے ٹھکانے پہ پہنچ چکے تھے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?