Thursday, December 10, 2015

 

علی حسن سمندطور، فن اور شخصیت


یہ مضمون پانچ دسمبر کو دی گرین ابن بطوطہ نامی کتاب کی تقریب اجرا میں پڑھا گیا۔

علی حسن سمندطور، فن اور شخصیت


آسمانی کتابوں میں تو مبہم اشارے ہیں مگر چینی فلسفی کنفیوشس نے اپنے معتقدین کو کھل کر تاکید کی تھی کہ وہ ہمیشہ بے سری موٹی عورتوں سے بچ کر رہیں۔
آپ کا واسطہ یقینا ایسے شوقیہ گلوکاروں سے ہوا ہوگا جن کا اپنے بارے میں خیال ہوتا ہے کہ وہ بہت اچھا گاتے ہیں مگر کوئی دوسرا ان سے ذرہ برابر متفق نہیں ہوتا۔ گانا گانے والے اور گانا سننے والے کے اس اختلاف کے باوجود یہ شوقیہ گلوکار جم کر گاتے ہیں اور گانا سنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
لکھنے والوں میں بھی اسی قسم کے قلم کار پائے جاتے ہیں جن کے سامنے قاری ہاتھ جوڑتا ہے کہ خدا کا واسطہ آئندہ کچھ نہ لکھنا مگر وہ پرلے درجے کے ضدی کسی التجا پہ کان نہیں دھرتے۔ علی حسن سمندطور کا تعلق بھی ان ہی ڈھیٹ لکھنے والوں میں کیا جاتا ہے۔
اسے ہماری بدقسمتی  کے علاوہ بھلا کیا کہا جاسکتا ہے کہ سمندطور اردو اور انگریزی میں قلم گھسیٹتے ہیں۔ سمندطور کا شمار ان تند نویس ناقص مصنفین میں ہوتا ہے جو اپنی تحریروں سے فضائے ادب کو مستقل مکدر کیے جارہے ہیں۔ ہر روز ایک سے بڑھ کر ایک پست درجہ تحریر کے ساتھ دھڑلے سے نمودار ہوجاتے ہیں۔ یہ حضرت ان ڈھیٹ قلم کاروں کے سردار معلوم دیتے ہیں جو قاری کی بے زاری اور زیر لب فحش گالیوں کا ذرا برا نہیں مانتے۔
سمندطور کا ادبی سفر جو بعض ناقدین کے لیے مضحکہ خیز اور دوسروں کے لیے ذہنی کوفت کا سسبب ہے دراصل شاعری سے شروع ہوا۔
شاعری میں موصوف مرحوم تخلص کرتے تھے۔ ایسی  بدذوق شاعری کرتے تھے کہ شہر کا سب سے امن پسند، مریل شخص بھی تشدد پہ آمادہ ہوجاتا تھا اور مرحوم کےسامنے مکہ تان کر کھڑا ہوجاتا تھا۔ ہر دفعہ جب مرحوم نے چار لوگوں کو اپنی شاعری سنائی تو نقص امن کا اندیشہ پیدا ہوگیا اور کچھ دلوں میں یہ پھلجڑیاں پھوٹیں کہ اب مرحوم کا لاحقہ موصوف کے نام میں سابقہ بن جائے گا اور رندان ادب مرحوم کی رحلت کے بعد سکون کا سانس لیں گے مگر افسوس کہ ہر دفعہ مرحوم موقع واردات سے فرار ہوکر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔
مرحوم کا اپنی شاعری کے بارے میں کہنا تھا کہ ان کی شاعری الہامی ہے اور نغمگی سے مزین ہے۔ اعلی درجے کے نقاد مرحوم کی تک بندی کو شاعری ماننے سے انکار کرتے تھے جب کہ دوئم درجے کے نقادوں کا خیال تھا کہ مرحوم کی شاعری تت ترت تت ترت تارا را جیسے محمل کلمات سے بھری ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیچ کا مواد حذف کردیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مرحوم نے مذہبی عالم کا روپ دھار کر اس وقت تک روٹی پانی کا انتظام کیا جب تک کہ مرحوم کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کردیا گیا۔ مگر دائرہ اسلام سے خارج ہونے سے پہلے مرحوم نے تین ہٹی پہ پیرصاحب مرحوم کے نام سے بے اولاد جوڑوں کو تعویذ دینے کا کام شروع کیا تھا۔ چند دانائوں نے مشاہدہ کیا کہ یا تو پیرصاحب مرحوم کے تعویذ کام نہیں کرتے اور اگر کہیں کام بن جائے تو پیدا ہونے والے بچے کی شکل باپ سے زیادہ پیر صاحب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک بچے کی ولادت کے بعد جب لوگ مرحوم کی پٹائی کرنے کے لیے ان کے آستانے کے باہر جمع ہورہے تھے، مرحوم پچھلی گلی سے بھاگ نکلے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیچ کا مواد حذف کردیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 

اس واقعے کے بعد پھر چند سالوں کا وقفہ ہے۔
ٹھیک اس وقت جب لوگ مرحوم کو یوں بھلانے والے تھے جیسے لوگ تکلیف دہ واقعات کو وقت کے ساتھ بھلا دیتے ہیں کہ مرحوم ایک دفعہ پھر نمودار ہوئے۔ ایک دفعہ پھر مرحوم کے ہاتھ میں قلم تھا مگر اب کی بار مصیبت نثر نگاری پہ آئی تھی۔ مرحوم نے ذرا سی دیر میں گھٹیا نثر کے پہاڑ کھڑے کردیے۔
مرحوم نے اپنی پہلی کتاب کو ایک ناول کا نام دیا۔  اس ناول کا پڑھنا ایک عذاب ہے۔ جس نے اس ناول کو ایک بار پڑھا وہ اردو ادب پڑھنے سے ہمیشہ کے لیے انکاری ہوگیا۔
یہ ناول کھوتا قبر کے قریب ایک گائوں میں ایک بہیمانہ قتل کے واقعے سے شروع ہوتی ہے۔ قاری کی جستجو ہوتی ہے کہ وہ قاتلوں تک پہنچے مگر موصوف بیچ کتاب میں کھوتا قبر چھوڑ کر اٹھارویں صدی میں امریکہ کی ریاست ورجینیا کے ایک زمیندار گھرانے کے روزوشب کا نقشہ کھینچنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
غرض کہ پوری کتاب سخت ذہنی کوفت کا ذریعہ بنتی ہے۔
اس ناول کی ایک اور بیہودگی یہ ہے کہ اس میں کردار یکا یک جنس بدل کر نمودار ہوتے ہیں۔ مثلا صفحہ تینتیس تک زمرد ایک نرم و نازک لڑکی ہے جو بارہویں جماعت میں پڑھ رہی ہے اور سہاگ رات کے سپنے دیکھ رہی ہے۔ صفحہ چالیس سے صفحہ ساٹھ تک زمرد پردہ سیمیں سے غائب رہتی ہے۔ پھر صفحہ ساٹھ پہ زمرد خان نامی ایک شخص سامنے آتا ہے جو دن کا بیشتر حصہ اپنی مونچھوں کو کڑک کرنے میں گزارتا ہے۔ زمرد خان شادی کا خواہش مند ہے اور بارہویں جماعت میں پڑھنے والی کسی دوشیزہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیچ کا مواد حذف کردیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مرحوم کی مستقل ادبی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ان کی یہ آٹھویں کتاب ہے۔ اس کتاب کے شائع ہونے پہ اردو پڑھنے والے خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ مرحوم ان کی جان چھوڑ کر ایک دفعہ پھر انگریزی پڑھنے والوں پہ قہر بن کر ٹوٹے ہیں۔ اس کتاب کے متعلق مرحوم کا کہنا ہے کہ یہ سفرنامہ ہے۔ مرحوم سے کسی قسم کی حیث بحث بے کار ہے اور مرحوم سے ان کے لکھے پہ بات کرنا بحث دراصل الٹا مرحوم کا ادبی مقام بلند کرنے کے مترادف ہے۔ شرفا سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کریں۔
اب مرحوم اپنی اس کتاب کو جگہ جگہ لے جارہے ہیں۔ ایک ایسی ہی تقریب میں جہاں مرحوم نے منتظمین کے سامنے ہاتھ جوڑ کر تقریر کرنے کی اجازت مانگی تھی مرحوم نے اپنی دانست میں انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقریر اس جملے سے شروع کی۔
خواتین و حضرات، میں نرا جاہل ہوں۔
ان کا اتنا کہنا تھا کہ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ مرحوم گھبرا کر بولے کہ دوستو، میں محض انکساری دکھا رہا تھا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔ تالیاں تھیں کہ تھمنے کا نام نہ لیتی تھیں۔ ہال کے ایک کونے میں تالیاں تھمنے لگتیں تو دوسری طرف سے گونج اٹھنا شروع ہوتی۔ منتظمین محفل نے مرحوم کے اس جملے کو ان کی مکمل تقریر اورحقیقت کا برملا عتراف سمجھتے ہوئے مائکروفون مرحوم کے ہاتھوں سے لے لیا۔

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?