Thursday, November 19, 2015

 

میلبورن





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچپن

نومبر پندرہ، دو ہزار پندرہ

  
حسیب کے ساتھ یہ طے پایا کہ ہم سب حسیب کے گھر جائیں گے۔ وہاں دوپہر کا کھانا ہوگا۔ پھر دیر تک گپ بازی ہوگی اور شام تک اور لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ شمالی امریکہ میں تو پاکستان سے مہمان آتے رہتے ہیں اور ان کی ہلکی پھلکی خاطر تواضع کی جاتی ہے مگر آسٹریلیا کا معاملہ اور ہے۔ کوئی بھولا بھٹکا آسٹریلیا پہنچ جائے تو آسٹریلیا میں مقیم میزبان اس مہمان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ حسیب کے گھر پہ ہوا۔ وہاں حلیم سے لے کر بریانی تک مختلف کھانے تیار تھے۔ کھانے کا اسی فی صد مزا کھانے والے کی بھوک میں ہوتا ہے۔ اس وقت تک صبح کا ناشتہ نچلی آنت کی طرف روانہ ہوچکا تھا، بھوک کھل گئی تھی۔ بس پھر کیا تھا ہم کھانے پہ ٹوٹ پڑے۔ اور یہ سلسلہ دیر تک چلا۔ شام تک حسیب نے ہماری ایک پرانی ساتھی صائمہ کو بھی گھیر لیا۔ صائمہ جب ہمارے ساتھ پڑھتی تھیں تو ان سے اتنی بات چیت نہیں تھی مگر اب کراچی سے ہزاروں میل بات اور تھی۔ صائمہ اپنے شوہر اور لڑکی کے ساتھ طے شدہ ملائیشین ریستوراں پہنچ گئیں۔ حسیب کے اہل خانہ اور ہم سب لوگ بھی اسی ریستوراں پہ پہنچ گئے۔
اس ملائیشین ریستوراں میں کھانا کھاتے ہوئے آسٹریلیا کا تیزی سے بدلتا آبادیاتی [ڈیموگرافک] نقشہ سمجھنا آسان تھا۔ دنیا آج جس آسٹریلیا سے واقف ہے وہ انگلستان سے آنے والے لوگوں نے بسایا تھا۔ برطانوی راج کے عروج کے زمانے میں انگلستان کے جہاز دنیا بھر کے سمندروں میں دوڑ رہے تھے۔ ان مہم جو لوگوں نے دو دراز کے علاقے دریافت کیے۔ جہاں گنے کی کاشت ممکن تھی وہاں جنگل کا صفایا کر کے گنے کے کھیت لگائے، جہاں چائے اگائی جاسکتی تھی وہاں درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر چائے کے باغات اگائے گئے۔ مگر ہر دریافت کی جانے والی جگہ انگریز کو بس جانے کے لیے صحیح معلوم نہ دیتی تھی۔ یہاں انگریز سے مراد صرف انگلستان کے لوگ ہیں؛ اردو بولنے والے بعض اوقات ہر یورپی نسل شخص کو انگریز کہتے ہیں، یہ قلم گھسیٹیا انگریز لفظ کے اس استعمال سے اختلاف رکھتا ہے۔ انگریز ایسی جگہ کو اپنا مستقلا گھر بنانا چاہتے تھے جہاں کا موسم انگلستان کے موسم سے ملتا جلتا ہو۔ شمالی نصف کرہ میں تو ایسے سارے مقامات عرصے سے آباد تھے۔ جنوبی نصف کرہ میں ایسے دو مقامات انگریزوں کے حصے میں آئے۔ ایک جنوبی افریقہ اور دوسرا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ۔ ان تینوں جگہوں سے مقامی آبادی کی حتی الامکان چھٹی کر کے ان علاقوں کو انگلستان سے آنے والے لوگوں سے بسایا گیا۔ امریکہ کی طرح آسٹریلیا بھی مختلف کولونیوں کی صورت بسا۔ آسٹریلیا ایک عرصے تک انگلستان کے ساتھ سیاسی تعلق سے بندھا رہا مگر بالاخر ایک آزاد ملک بن کر ابھرا۔
واضح رہے کہ دوسری یورپی طاقتوں کے مقابلے میں انگلستان نے صرف ایک باغی نوآبادی کی جنگ کے مزے چکھے ہیں۔ اسے کہتے ہیں تلخ تجربے سے فورا سبق حاصل کرلینا۔ یعنی امریکہ کی جنگ آزادی کے بعد انگلستان کو عقل آگئی کہ جب کسی نوآبادی میں بغاوت کی لہر دیکھو تو بات خراب ہونے سے پہلے ہاتھ ملا کر، گلے مل کر وہاں سے رخصت ہوجائو۔ آسٹریلیا بھی اسی طرح خوش اسلوبی سے انگلستان کے سیاسی اثر سے باہر آیا تھا۔
انگلستان کی وہ نوآبادیاں جہاں نووارد انگریزوں کے مقابلے میں مقامی آبادی کی اکثریت تھی انہیں بھی انگریز نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ایک کر کے خالی کردیا۔ انگریز نے کسی نوآبادی میں ایسی جنگ نہیں لڑی جیسی فرانس نے الجزائر میں  یا ہسپانیہ نے جنوبی امریکہ میں لڑی۔
ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا کی انگریز سے آزادی کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کو مغالطہ ہے کہ ہمارے علاقے میں سیاسی طاقتیں جو تحریکیں عدم تشدد [نان وائلینس] کے جھنڈے تلے چلا رہی تھیں ان سے گھبرا کر انگریز ہمارے خطے سے رخصت ہوا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دنیا میں صرف ایک زبان سنی جاتی ہے اور وہ زبان ہے طاقت کی زبان۔ جب آپ بکرے کی قربانی کرنا چاہیں تو وہ آپ کے ارادے بھانپ کر کیسے شور مچاتا ہے، عدم تشدد احتجاج سے ہر ممکن آپ کو قتل کے ارادے سے باز رکھنے کی کیا کیا کوشش نہیں کرتا۔ مگر آپ اس کی ایک نہیں سنتے، ذرا سی دیر میں بکرے کی گردن پہ چھری چلا دیتے ہیں۔ اگر منمنانے کے بجائے بکرا بھی ایک چھرا لے کر آپ کے مقابلے پہ آئے تو شاید اس کے احتجاج میں آپ زیادہ وزن محسوس کریں۔
دوسری جنگ عظیم میں انگریز نے نوآبادیوں سے بڑی تعداد میں جوان جنگ لڑنے کے لیے بھرتی کیے تھے۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد یہ لڑاکا، تجربہ کار، کہنہ مشق لوگ جب واپس اپنے اپنے علاقوں کو پلٹے تو انگریزوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اگر اب کی بار ہندوستان میں انگریز کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو وہ ۱۸۵۷ کے غدر سے بہت مختلف نوعیت کی ہوگی۔ سو سال پہلے کی بغاوت میں مقامی آبادی کے پاس نہ تو جدید اسلحہ تھا اور نہ ہی اس کے استعمال کی تعلیم اور تجربہ۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے دو سالوں کے اندر انگریز پرامن طریقے سے جنوبی ایشیا چھوڑ کر اپنے جزیرے کی طرف پلٹ گیا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ چالیس کی دہائی میں آسٹریلیا اور انگلستان دو الگ الگ ملک تو بن گئے مگر آسٹریلیا کی دلچسپی انگلستان جیسا ہی ایک ملک بن کر رہنے میں رہی۔ اس نسل پرستی کے پیچھے آسٹریلیا کی سیاسی قیادت کا یہ نعرہ تھا کہ ہم آسٹریلیا کو ایک بہترین اور مہذب ملک کے طور پہ دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے ہم صرف انگریزوں کو اس ملک میں بسنے کی سہولت دیں گے۔
مگر پچھلی صدی امریکہ کی صدی تھی بلکہ اس وقت تک کی نئی صدی بھی امریکہ ہی کی ہے۔ دنیا کے تمام معاملات امریکہ کے حساب سے چل رہے ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ اخلاقی اقدار طاقتور قوموں کے حساب سے رائج ہوتی ہیں۔ امریکہ کی طاقت کی وجہ سے آج کی دنیا میں جلد یا بدیر وہی اخلاقی اقدار رائج ہوں گی جو امریکہ میں رائج ہیں۔
چنانچہ جب امریکہ میں ساٹھ کی دہائی میں نسلی برابری کی ہوا چلی تو اس کے اثرات پوری دنیا پہ نمودار ہوئے۔ جنوبی افریقہ تو ایک خول میں سمٹ کر بیٹھ گیا اور اس نے اگلی تین دہائیاں اس طرح نکال دیں مگر آسٹریلیا نے ایسا نہ کیا۔ وہاں بتدریج نسل پرست پالیسیاں ختم کی گئیں۔ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے اور آسٹریلیا اپنے جغرافیائی خطے کے زمینی حقائق کے حساب سے ڈھلتا جارہا ہے۔ ہر چہ درکان نمک رفت، نمک شد۔
پچھلی چار دہائیوں میں آسٹریلیا میں آنے والے والی اسی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے اس روز پاکستانی تارکین وطن آسٹریلوی میزبان، پاکستان سے آنے والے مہمانوں کو لے کر ایک ملائیشین ریستوراں میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
پاپارچ نامی وہ ملائیشین ریستوراں بہت مقبول تھا۔ وہاں کھانا کھانے کے بعد جب ریستوراں کے شور میں گفتگو کرنے میں مشکل پیش آئی تو سب وہاں سے اٹھ کر حسیب کے گھر پہنچ گئے جہاں رات گئے تک چائے کا سلسلہ چلا۔ جب رات کے اگلے پہر حسیب سے رخصت لی تو ہماری ایک اور مشکل حل ہوچکی تھی۔ حسیب کے پاس ایک اضافی راہ نما تھا جو انہوں نے ہمیں ادھار دے دیا تھا۔ جب تک آسٹریلیا میں رہیں اس راہ نما کو استعمال کریں؛ یہاں سے روانہ ہوتے وقت اسے حسیب کو واپس کر جائیں۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?