Thursday, November 05, 2015

 

سڈنی سے میلبورن، فرشتوں کے ساتھ











ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ترپن

نومبر ایک، دو ہزار پندرہ


سڈنی سے میلبورن، فرشتوں کے ساتھ



سفر میں بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسا ہی ایک فرشتہ صفت آدمی اس وین کا ڈرائیور تھا جس نے ہمیں ہوٹل سے ہوائی اڈے پہنچایا تھا۔ سڈنی میں چار دن گزارنے کے بعد اب آگے جانا تھا۔ اور بہت حساب کتاب سے یہ بات سمجھ میں آئی تھی کہ بسوں اور ٹرین کی سواری سے کہیں کم خرچ کرائے کی گاڑی کا استعمال تھا۔ چنانچہ سڈنی ہوائی اڈے پہ کرائے کی ایک گاڑی بک کرائی گئی تھی اور اب اسی گاڑی کو لینے کے لیے ہم ہوائی اڈے جا رہے تھے۔ ہم وین میں سوار ہوئے تو ڈرائیور نے پوچھا کہ ہمیں سڈنی ہوائی اڈے کے اندرون ملک ٹرمینل جانا تھا یا بین الاقوامی ٹرمینل۔ اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہ تھا۔ فورا کرائے کی گاڑی کی ریزرویشن نکالی گئی۔ اس پہ بھی اس سوال کا جواب موجود نہ تھا۔ اب وہ مہربان شخص متحرک ہوگیا۔ اس نے فورا ادھر ادھر فون گھمانے شروع کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں بالکل ٹھیک جگہ چھوڑنا چاہتا تھا تاکہ ہم بعد میں غلط جگہ سے صحیح جگہ جانے کی زحمت سے بچ جائیں۔ حالانکہ یہ سب کچھ کرنا اس کے لیے ضروری نہ تھا۔ ہم انٹرنیٹ پہ سوای کے پیسے پہلے ہی دے چکے تھے۔ اگر وہ چاہتا تو ہمیں اپنی آسانی سے ہوائی اڈے پہ کہیں بھی چھوڑ دیتا؛ پھر ہم جانتے اور ہمارا کام۔ کئی فون کرنے کے بعد آخر ڈرائیور یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ ہمیں اپنی گاڑی اندرون ملک ٹرمینل سے ملنا تھی۔ مگر  ڈرائیور نے محض اس معلومات پہ اکتفا نہیں کی۔ ہمیں ٹرمینل پہ پہنچانے کے بعد اس نے ہمیں اپنا فون نمبر دیا اور ہم سے کہا کہ وہ اس جگہ پانچ سات منٹ انتظار کرے گا۔ اگر ہم غلط جگہ پہنچے ہیں تو فورا اسے فون کریں۔ وہ ہمیں دوسرے ٹرمینل لے جائے گا۔ اس پورے معاملے میں کسی اضافی رقم کا سوال تک نہ تھا۔ مگر اچھا ہوا کہ ہم اس مہربان ڈرائیور کو مزید زحمت دینے سے بچ گئے۔ ہم صحیح ٹرمینل پہ تھے۔ سڈنی سے میلبورن جاتے ہوئے جب طویل سفر میں فرصت کے چند لمحات میسر آئے تو یہ سوچنا شروع کیا کہ اخلاق کا خوش حالی سے کیا تعلق ہے۔ اگر ایسا ہو کہ آپ بالکل مفلوک الحال ہوں اور آپ کو کھانے پینے کے لالے پڑے ہوں تو کیا اس وقت بھی آپ بااخلاق ہوسکتے ہیں؟

اسی سفر میں ایک ایسا تجربہ ہوا جس سے اندازہ ہوا کہ انسان کس قدر جلد نئی ٹیکنالوجی کا محتاج ہوجاتا ہے۔ ہوا یوں کہ یہ جانتے ہوئے کہ ہم آسٹریلیا میں کرائے کی گاڑی لیں گے ہم اپنے ساتھ ایک الیکٹرانک راہ نما [جی پی ایس] لے گئے تھے۔ مگر اس راہ نما میں آسٹریلیا کا نقشہ موجود نہ تھا۔ سڈنی میں قیام کے دوران راہ نما پہ آسٹریلیا کا نقشہ چڑھانے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ قصور ہمارے اناڑی پن کا تھا۔ خیال ہوا کہ کسی طرح سڈنی سے میلبورن پہنچ جائیں، وہاں اپنے کالج کے ساتھی حسیب شرر کی مدد سے جی پی ایس پہ آسٹریلیا کا نقشہ چڑھا لیں گے۔ مگر سڈنی سے میلبورن کیسے جائیں؟ ایک دفعہ سڈنی سے نکل جائیں تو میلبورن جانے کی راہ تو آسان تھی؛ اصل مسئلہ سڈنی سے باہر نکلنا اور پھر میلبورن پہنچنے پہ اپنے ہوٹل تک جانا تھا۔ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ہوٹل چھوڑنے سے پہلے اپنے کمپیوٹر پہ سڈنی کے ہوائ اڈے سے میلبورن کے ہوٹل تک کا پورا راستہ اتار لیا۔ ساتھ ہی ایک آئی ٹچ پہ بھی یہی نقشہ سامنے کر لیا۔ مگر راہ نما کا آواز کے ساتھ راستہ بتانے کا مزا اور تھا۔ چنانچہ ہوائی اڈے سے باہر نکل کر ہائی وے لینے سے پہلے بھٹک گئے۔ آگے جا کر غلط راہ پہ جانے کا احساس ہوا تو پلٹ کر آئے اور سڑک پہ لگے سائن کی مدد سے صحیح راہ لی۔

سڈنی سے میلبورن کی راہ میں ہر دفعہ جب رکے تو وہاں ایک عدد میک ڈانلڈ ریستوراں کو موجود پایا۔ آپ میک ڈانلڈ اور اس جیسے دوسرے جلد تیار کھانوں [فاسٹ فوڈ] والے ریستوراں کی لاکھ خرابیاں گنوائیں کہ یہ لوگوں کو ایسی غذا کھلا رہے ہیں جو کھانے والے کو مٹاپے کی طرف مائل کرتی ہے، یا یہ کہ یہ ریستوراں کوڑے کے ڈھیر لگا کر ماحول کو خراب کررہے ہیں، یا یہ کہ یہ کاروبار وہاں کام کرنے والوں کو بہت کم معاوضہ دیتے ہیں، مگر آپ کو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ان ریستوراں کی وجہ سے آپ کو صاف ستھرے غسلخانے میسر آجاتے ہیں۔ سڈنی سے میلبورن جاتے ہوئے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔ میک ڈانلڈ کی ایک دوسری افادیت یہ تھی کہ وہاں مفت انٹرنیٹ، وائرلیس کے ذریعے میسر تھا۔ مگر جس آخری جگہ ہم نے میک ڈانلڈ میں حاضری لگائی وہاں مفت انٹرنیٹ کا سائن ہونے کے باوجود ہمارا آئی ٹچ انٹرنیٹ سے جڑ نہ پایا۔ الٹا نقصان یہ ہوا کہ میلبورن میں ہوٹل تک کا جو نقشہ اب تک آئی ٹچ میں موجود رہا تھا وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب لے دے کہ ہمارا لیپ ٹاپ ہی ہمارا آخری سہارا تھا۔ مگر پھر وہ سہارا بھی اس وقت ہاتھ سے نکل گیا جب میلبورن پہنچتے پہنچتے لیپ ٹاپ کی بیٹری مردہ ہوگئی۔

میلبورن میں ہمارا قیام ایک گھر میں تھا جس کے کمرے مسافروں کو کرائے پہ دیے جاتے تھے۔ میلبورن پہنچ کر ہم کچھ دور تو نقشے کی یادداشت کے حساب سے چلے مگر پھر جلد ہی بھٹک گئے۔ جس جگہ ٹہرنا تھا وہاں کے مالک مکان کو فون کیا اور نشانیاں بتائیں کہ ہمیں آس پاس یہ سڑکیں نظر آرہی ہیں تو اس نے معذرت کی کہ اس کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم بھٹک کر کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس موقع پہ ایک بار پھر ایک فرشتہ ہماری مدد کے لیے پہنچا۔ وہ فرشتہ ہمیں ایک پیٹرول پمپ کے دکاندار کے روپ میں ملا؛ اس کا نام کیلون تھا۔ یہ چینی نژاد آسٹریلین ہمارے لیے بچھ گیا۔ کچھ یوں لگا کہ کیلون نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا کہ ہمیں ہمارے ٹھکانے پہ پہنچا دے۔ دکان میں کچھ کچھ وقفے سے گاہک آتے تو وہ ہم سے معذرت کر کے گاہک کی طرف متوجہ ہو جاتا مگر پھر گاہک کے روانہ ہوتے ہی ہمارے لیے ایک کاغذ پہ نقشہ بنانا شروع کردیتا۔ اس جگہ سے ہمارے ہوٹل تک کا راستہ کافی پیچیدہ تھا مگر اس نے بہت اچھا نقشہ بنایا اور پھر دو بار ہمیں وہ نقشہ سمجھایا کہ پیٹرول پمپ سے باہر نکل کر کس طرح ہمیں مڑ کر آنا ہوگا، پھر ایک چھوڑ، دوسری چھوڑ، تیسری چورنگی پہ بائیں طرف، پھر قریبا پانچ کلومیٹر جانے کے بعد فلاں سڑک پہ دائیں طرف اور پھر آگے ہائ وے اوپر سے گزارنے کے بعد فلاں سڑک پہ بائیں طرف۔ ہم کیلون کا بہت شکریہ ادا کر کے پیٹرول پمپ سے نکلے اور اس کے بنائے گئے نقشے کی مدد سے ہوٹل کے علاقے میں پہنچ گئے۔ مگر وہاں پہنچ کر ایک دفعہ پھر گڑبڑا گئے کیونکہ ہمارے حساب سے وہ سڑک آجانی چاہیے تھی جہاں ہمیں بائیں ہاتھ مڑنا تھا اور جس سڑک پہ ہمارا ہوٹل تھا۔ اس وقت تک فون کی بیٹری بھی مر رہی تھی مگر ہم اس فون سے ہوٹل کے مالک سے بات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب کی بار نشانیاں بتانے پہ مالک کو سمجھ میں آگیا کہ ہم اس وقت کہاں تھے۔ اس نے بتایا کہ ہمیں اور آگے آنا تھا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ ایک کام سے جا رہا تھا۔ ہمارے کمرے کی چابی اس نے دروازے کے باہر غالیچے کے نیچے رکھ دی تھی۔ ہم چابی حاصل کر کے کمرہ شمار ایک میں چلے جائیں۔

ہم اب کی بار چلے تو ہوٹل پہنچ کر ہی دم لیا۔ اس وقت تک بہت رات ہو چکی تھی۔ سردی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہم نے صدر دروازے کے سامنے موجود غالیچے کو ہٹایا تو واقعی وہاں دو چابیوں کا ایک گچھا موجود تھا۔ ایک چابی سے صدر دروازہ کھلا اور دوسری سے کمرہ شمار ایک کا دروازہ۔ کچھ ہی دیر میں ہم بستر پہ تھے اور نیند گہری ہونے سے پہلے سوچ رہے تھے کہ کاش ہمارے پاس راہ نما میں آسٹریلیا کا نقشہ ہوتا تو زندگی کس قدر آسان ہوجاتی۔



Comments:
shhandar! akhlakiat par zor dia gia, insano ki ehmiat ka etraf kia gia, laptop, eye tab, internet, MacDonald, means nay or parhty alfazo ka istimal, manzil talash me bhatakna edhar udhr heran preshan, par akhir kar manzil mil gi.. waki insan safar k doran bht kuch sekhta h..
 
shhandar! akhlakiat par zor dia gia, insano ki ehmiat ka etraf kia gia, laptop, eye tab, internet, MacDonald, means nay or parhty alfazo ka istimal, manzil talash me bhatakna edhar udhr heran preshan, par akhir kar manzil mil gi.. waki insan safar k doran bht kuch sekhta h..
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?