Thursday, October 08, 2015

 

براعظم آسٹریلیا




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انچاس

اکتوبر،  دو ہزار پندرہ


براعظم آسٹریلیا


چلے ہم سینتیس درجہ شمال سے تھے جہاں موسم گرما تھا۔ پھر جنوب کی جانب اڑتے اڑتے ہم نے پہلے  خط سرطان پار کیا اور پھر خط استوا۔ پھر خط استوا سے مزید جنوب کی طرف جاتے ہوئے فجی کے شہر نندی پہنچے جہاں کا عرض بلد سترہ درجے جنوب ہے۔ خط استوا سے جنوب میں ہونے کی وجہ سے اب ہم کہنے کو موسم سرم میں پہنچ چکے تھے۔ مگر خط استوا کے دونوں طرف، خط سرطان سے خط عقرب تک، موسم بہت معتدل رہتا ہے، اور اسی وجہ سے نندی میں سردی کا کوئی احساس نہ تھا۔ مگر اب جو نندی سے چلے تو ہم نے اڑتے ہوئے خط عقرب پار کیا اور شہر سڈنی پہنچے جو خط استوا سے چونتیس درجے نیچے جنوب میں ہے۔ سڈنی کا عرض بلد قریبا وہی ہے جو لاس اینجلس کا ہے اور اسی وجہ سے سڈنی سردیوں میں اتنا ہی سرد ہوتا ہے جس قدر سرد لاس اینجلس اپنی سردیوں میں ہوتا ہے۔
نندی سے سڈنی جانے والے جہاز میں یوں لگتا تھا کہ ہمیں جان بوجھ کر جہاز کے اس حصے میں بٹھایا گیا تھا جہاں چھوٹے بچے بڑی تعداد میں تھے۔ ایسا کئی دفعہ ہوا کہ جہاز کے اس مخصوص حصے میں بیک وقت کئی بچوں کا باجا بج رہا ہوتا تھا، ورنہ ہر وقت کم از کم ایک بچے کے رونے کی آواز تو ضرور سنائی دیتی تھی۔
سڈنی ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی سردی کا احساس ہوا۔ جون کی پندرہ تاریخ تھی یعنی وہاں سردیوں کا ایسا ہی وقت تھا جیسا شمالی نصف کرے میں دسمبر پندرہ کے آس پاس ہوتا ہے۔ ہماری جس جیکٹ کو یقینا تمسخر سے کیلی فورنیا میں دیکھا گیا تھا اب اپنے صحیح مقام پہ پہنچ چکی تھی۔ ہوائی اڈے پہ ہم نے اپنے فون کے لیے مقامی سم خرید لی تھی۔ اس کو بیچنے والا ایک ایسا چینی نوجوان تھا جو اپنے چہرے پہ بے زاری سجائے بیٹھا تھا۔ ہم نے اس کے ٹھیے پہ پہنچ کر سم کی بابت معلوم کیا تو وہ کھل اٹھا۔ اس نے جھٹ ہمارے فون سے پرانی سم نکال کر نئی سم لگائی اور جلدی سے رقم حاصل کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
ہوائی اڈے سے ہوٹل جانے والی وین جب ایک جگہ رک کر ایک جاپانی خاتون سیاح کو اتار چکی تو وین میں صرف ہم چار مسافر رہ گئے۔ ہم نے وین کے ڈرائیور سے باتیں کرنا شروع کردیں۔ وہ ڈرائیور امریکہ ہو آیا تھا۔ اس سفر میں وہ کینیڈا بھی گیا تھا اور اس نے امریکہ کے مشرقی اور مغربی ساحل دیکھے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ جلد وقت نکال کر ایک دفعہ پھر امریکہ جائے گا اور اب کی بار فرصت سے وہ ملک دیکھے گا۔ موجودہ عہد میں ثروت کا رشتہ پیشے سے جانا جاتا ہے۔ بعض پیشوں کو کم حیثیت اور دوسروں کو مال بنانے کا بہتر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ افسوس صرف یہ ہے کہ بعض بظٓاہر دفعہ پڑھے لکھے لوگ بھی کسی شخص کے اختیار کردہ پیشے سے نہ صرف اس کی مالی بلکہ ذہنی استعداد کا اندازہ کرتے ہیں۔ مغربی دنیا کے باہر وہ تمام پیشے جن سے وابستہ لوگوں کو محنت مزدوری کرنی ہو کم حیثیت خیال کیے جاتے ہیں۔ مجھے بہت پہلے افریقہ کے سفر میں ایک شخص ملا تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ جب یورپ سے آنے والے سیاحوں سے بات کرتا ہے تو اسے کبھی کبھی ایسے لوگوں سے مل کر تعجب ہوتا ہے جو اپنے ملک میں پلمبر ہیں یا الیکٹریشن ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ آخر پلمبر اور الیکٹریشن اتنی رقم کیسے جمع کرلیتے ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کی سیاحت کرسکیں۔ اس کے اپنے ملک میں ایسا ممکن نہ تھا۔
ہمارا ہوٹل ڈارلنگ ہرسٹ کے علاقے میں تھا اور سڈنی کی قابل دید جگہوں سے بہت نزدیک تھا۔ ہم لمبے سفر کے بعد سڈنی پہنچے تھے۔ تھکن کا احساس تھا مگر نئے شہر میں پہنچنے کی خوشی بھی بہت تھی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ ہم ہوٹل سے باہر نکل کر شہر کو نہ دیکھیں اور یہ جاننے کی کوشش نہ کریں کہ سڈنی کا دل کیسے دھڑکتا ہے؟ ہم ایک نقشہ ہاتھ میں لیے ہوتل سے نکل پڑے۔ خیال تھا کہ چلتے چلتے مشہور زمانہ اوپرا ہائوس پہنچ جائیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ایک جگہ جہاں سیدھے ہاتھ جانا تھا، الٹے ہاتھ چل پڑے۔ سردی کے چھوٹے دن تھے؛ ذرا سی دیر میں سورج غروب ہوگیا۔ پھر بہت آگے جا کر جب ایک بھلے مانس سے راستہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہم تو بالکل الٹ طرف جا رہے تھے۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ بہت سے لوگ پہلے ہی بارش کی تیاری میں تھے۔ انہوں نے جھٹ چھتریاں تان لیں۔ ہماری تیاری بارش کی نہ تھی چنانچہ ہم ہلکی بارش میں بھیگتے، چوہے بنے واپس ہوٹل کی طرف پلٹے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?