Thursday, October 15, 2015

 

سڈنی



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچاس

اکتوبر دس، دو ہزار پندرہ


سڈنی



وہ آسٹریلیا میں ہمارا دوسرا دن تھا۔ ہم دور تک پیدل چلے کہ پیدل چل کر کسی نئے شہر سے واقفیت حاصل کرنا اچھا تجربہ ہوتا ہے۔ دوسرے دن کے مشاہدات سے ہمیں سڈنی یورپ کا ہی کوئی شہر محسوس ہوا۔ وہ مشاہدات کیا تھے؟ یہ داستان سنیے۔
اپنے اس سفر میں نہ صرف یہ کہ ہم شمال سے جنوب پہنچے تھے بلکہ مغرب کی طرف چلتے ہوئے ہم نے بین الاقوامی خط تاریخ پار کی تھی اور اب ہم کیلی فورنیا سے قریبا اٹھارہ گھنٹے آگے ہوگئے تھے۔ اسی وجہ سے سڈنی پہنچنے پہ جہاں رات کو جلدی نیند آئی وہیں صبح فجر سے پہلے آنکھ کھل گئی۔ کم خرچ سفر کرنے والے مسافر ایسے کھانے کم کھاتے ہیں جن میں انہیں خدمت [سروس] کے پیسے دینے ہوں۔ ہمارا شمار بھی انہیں کنجوس مکھی چوس مسافروں میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے  رات ہوٹل کی طرف پلٹتے ہوئے ہم نے اگلی صبح کے ناشتے کا انتظام کر لیا تھا۔ صبح کے تین بجے بیدار ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو آسمان تاریک تھا۔ سڑکیں سنسان تھیں اور پست و قدآور عمارتوں میں شبینہ قمقمے جل رہے تھے۔ اس تاریکی میں ہوٹل سے نکل کر باہر جانا مناسب نہ تھا۔ ہم نے کمرے میں ناشتہ کیا اور ساتھ ہی ٹی وی لگا دیا۔  ٹی وی پہ سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ انڈونیشیا نے آسٹریلیا پہ الزام لگایا تھا کہ آسٹریلیا کے حکام رشوت ستانی میں ملوث ہیں؛ غیرقانونی افراد سے بھری کشتیاں جو انڈونیشیا سے نکل کر آسٹریلیا کا رخ کرتی ہیں، آسٹریلیا کے حکام ان کشتیوں کے ناخدائوں کو رشوت دے کر کشتی واپس لوٹانے پہ مجبور کرتے ہیں۔ اس ساری بحث میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ تھی کہ دنیا میں کتنے زیادہ ممالک اور علاقے ایسے ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام ہے اور جہاں سے نکل کر لوگ پرامن جگہوں کا رخ کررہے ہیں۔ آخر سیاسی استحکام مغربی دنیا کا ہی خاصہ کیوں ہے؟ آخر مغربی دنیا کے لیے ہی یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک سے نکل بھاگنے والوں کو اپنی پناہ میں لے لے؟ نوآبادیاتی دور ختم ہونے کے بعد آخر پرانی نوآبادی سے تعلق رکھنے والے یہ ممالک کب سیاسی استحکام حاصل کرپائیں گے؟ یہ سوالات ایک عرصے سے میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ اگر میں اپنی موت سے پہلے اس بہت بڑے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنا کوئی چھوٹا سا کردار ادا نہ کرپایا تو میں ایک نہایت یاسیت بھری موت مروں گا۔  آسٹریلیا کے اسی سفر میں بہت بعد میں مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا جو پاکستان سے جان بچا کر بھاگے تھے اور انڈونیشیا پہنچنے کے بعد کشتی سے آسٹریلیا پہنچے تھے، مگر ان کے تجربات میں آپ کو اس سفر نامے کی اگلی اقساط میں سنائوں گا۔
کچھ دیر میں باہر روشنی پھیلی تو ہم ایک بار پھر اس نئے شہر سے روشناس ہونے کے لیے نکلے۔ گزری رات کی بارش کے بعد ہر چیز دھلی صاف ستھری نظر آرہی تھی۔ ہوٹل سے کچھ دور چل کر ہم بڑی سڑک پہ آگئے۔ وہاں خوب رونق تھی۔ لوگ سردیوں کے گرم کپڑے پہنے تیز تیز قدموں سے چلے جارہے تھے۔ ہمیں وہاں بڑی تعداد میں چینی خدوخال کے لوگ نظر آئے۔ اور یہ خیال ہوا کہ بس چند دہائیوں کی بات ہے، چینی نسل کے لوگ پوری دنیا پہ چھا جائیں گے اور لوگ پرانی تصاویر میں دیکھا کریں گے کہ کسی زمانے میں چینی شکل کے علاوہ شکلوں کے لوگ بھی اس دنیا میں ہوا کرتے تھے۔
ہم اوپرا ہائوس کی طرف چلتے ہوئے ایک اسکول کے قریب سے گزرے۔ اسکول سے دس گیارہ سال کے لڑکے نیلے کوٹ اور لال نک ٹائی پہنے نکل رہے تھے۔ وہ منظر انگلستان کے کسی پبلک اسکول کا بھی ہوسکتا تھا۔ ہمیں خیال ہوا کہ گو آسٹریلیا کی طرح امریکہ کا تعلق بھی انگلستان سے بہت گہرا ہے مگر امریکہ پہ انگلستان کا ایسا اثر نہیں ہے جیسا اثر انگلستان کا آسٹریلیا پہ ہے۔ آسٹریلیا تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے انگلستان کا چھوٹا جزیرہ اپنے علاقے سے نکل کر ایک بڑے جزیرے پہ پھیل گیا ہو۔ مگر ہم جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ عہد رفتہ سے تعلق رکھنے والا آخری آخری منظر تھا۔ آسٹریلیا کے اطراف سے لوگوں کے جوق در جوق آسٹریلیا آنے کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ آسٹریلیا اپنے علاقے کے حقائق سے قریب تر ہوجائے گا۔
سڈنی کے اوپرا ہائوس کا شمار دنیا کی ان چند عمارات میں ہوتا ہے جو اپنے شہر کی نمائندہ شکل بن گئی ہیں۔ سڈنی ہاربر پہ سمندر کے ساتھ سیپیوں کی شکل میں بنایا گیا یہ اوپرا ہائوس ستر کی دہائی میں بن کر مکمل ہوا مگر اپنے اچھوتے ڈیزائن کی وجہ سے ذرا سی دیر میں سڈنی کا سب سے معروف سیاحتی مقام بن گیا۔ وہ کام کا دن تھا مگر اوپرا ہائوس پہ سیاحوں کا ہجوم تھا۔ قریبا ہر شخص کے ہاتھ میں کیمرہ اور کئی کے پاس سیلفی اسٹک تھی جس سے لوگ اپنی تصاویر اس عالمی شہرت کی عمارت کے ساتھ بنا رہے تھے۔ ان سیاحوں میں سے کئی یقینا ان تصاویر کو ہاتھ کے ہاتھ فیس بک پہ بھی چڑھا رہے ہوں گے۔اصل میں یہی لوگ تو سوشل میڈیا کی جان ہیں۔ ان ہی کے دم سے سوشل میڈیا کی کائنات حرکت میں ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے شہزادے اور شہزادیاں اپنے آپ سے متعلق پل پل کی خبریں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ دیکھیے، یہ ہے وہ آملیٹ جو میں نے ناشتے میں کھایا۔ میں جس ٹرین میں سفر کررہا ہوں اس کے باہر کا منظردیکھیے۔ واہ، دوستوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کا کیا خوب مزا آرہا ہے۔ یہ دیکھیےسورج ڈوبنے کا منظر کتنا اچھا ہے۔ غرض کہ یہ لوگ جو بھی کر رہے ہوتے ہیں، فیس بک کے ذریعے اس کام کی خبر ہر خاص و عام تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ پھر فیس بک کے چند ایسے صارفین ہیں جو فیس بک پہ آتے ہیں، صبح و شام کچھ نہ کچھ ڈالتے ہیں، اور پھر ایک روز اچانک منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ وہ اتنے متحرک ہونے کے باوجود اس طرح ایک دن کیوں غائب ہوگئے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ فیس بک ان کا بہت زیادہ وقت لے رہی تھی۔ نہ جانے وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ فیس بک آپ کا صرف اتنا ہی وقت لے سکتی ہے جتنا وقت آپ خود اس کو دیں۔ فیس بک کے زیادہ تر صارفین ان تماش بینوں میں شمار ہوتے ہیں جو فیس بک پہ دل بہلانے کو جاتے ہیں۔ وہ فیس بک میں لاگ ان ہوتے ہیں اور اپنے دوستوں اور اقارب کے تازہ ترین احوال، ان کی تازہ تصاویر، اور ان کے سیاسی اور مذہبی خیالات دیکھنے کے بعد چپ چاپ وہاں سے کھسک لیتے ہیں۔ اور پھر فیس بک کے یقینا ایسے بھی صارفین ہیں جو فیس بک کو اپنے مذہبی یا سیاسی خیالات کے پرچار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ایسے ہی ایک دوست ہیں کہ پاکستان سے چاہے کیسی بھی خبر کیوں نہ آئے کہ وہاں مسلمانوں نے اقلیتوں کا جینا کیسے دوبھر کررکھا ہے وہ اپنی نظر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پہ رکھتے ہیں۔


Comments:
bahut he aala! nay zamany k masail or vocabulary estimal ki. lag ra tha k me es dor ki hakiqat parh ri ho na k khayalati or porany dor k masail...
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?