Friday, October 02, 2015

 

ٹام بریڈلی







ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو سینتالیس

 ستمبر بیس،  دو ہزار پندرہ

ٹام بریڈلی


لاس اینجلس ہوائی اڈے کا انٹرنیشنل ٹرمینل میری زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ چند دہائیوں پہلے جب میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں کس قسم کی زندگی گزارنا چاہوں گا اور کیسے مرنا چاہوں گا، تو میں اسی ٹرمینل سے ایک یک طرفہ ٹکٹ کے ذریعے ایک لمبے سفر پہ روانہ ہوا تھا۔ وہ ایسا سفر تھا جس میں جانے کی تاریخ کا تو تعین تھا، سفر ختم کرنے کی تاریخ کا کوئی دن مقرر نہ تھا۔ خیال تھا کہ جس روز جیب میں رقم ختم ہوجائے گی، اس روز سفر بھی ختم ہوگا اور گھر واپسی ہوگی۔ اس وقت محترم ٹام بریڈلی صاحب لاس اینجلس کے مییر تھے اور ورجن اٹلانٹک ائیرلائن نئی نئی شروع ہوئی تھی۔ ورجن اٹلانٹک کا لاس اینجلس سے لندن کا یکطرفہ ٹکٹ سب سے سستا تھا اور یہی ٹکٹ میں نے امریکہ سے فرار کے لیے استعمال کیا تھا۔
میں نے زندگی گزارنے کے متعلق کیا فیصلہ کیا تھا؟ اس فیصلے کا تعلق ایک خاص سوچ سے ہے۔ یہ خیال ہے کہ زندگی ایک رولر کوسٹر کی طرح ہے۔ رولر کوسٹر میں سواری کی کچھ تیاری کرنی ہوتی ہے۔ رولر کوسٹر کی نشست میں بیٹھ کر آپ پیٹی کستے ہیں اور ایک لوہے کی روک آپ کے سامنے اتاری جاتی ہے تاکہ آپ اس تفریحی سواری کے دوران محفوظ رہیں۔ زندگی جس رولر کوسٹر کا نام ہے اس میں سواری کے دوران حفاظتی تراکیب کرنے کے لیے کوئی الگ سے وقت نہیں دیا جارہا۔ آپ کی پیدائش سے اس رولر کوسٹر کی سواری شروع ہوچکی ہے۔ اس سواری کے دوران ہی حفاظتی تراکیب بھی کرنی ہیں اور سواری سے لطف اندوز بھی ہونا ہے۔ بہت سے لوگ زندگی ایسے جیتے ہیں کہ وہ مستقل زندگی جینے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں؛ وہ مالی استحکام کی تیاری کرتے ہیں، یا زندگی میں ایسے وقت کا انتظار کرتے ہیں جب ان کے اوپر سے ذمہ داریاں کم ہوجائیں گی۔ گویا وہ زندگی جینے کے لیے کسی خاص وقت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یقینا زندگی انتظار کرنے کے لیے نہیں ہے۔ زندگی تو جینے کے لیے ہے۔ وہ لوگ جو مستقل زندگی کی تیاری میں جوجھے ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر رولر کوسٹر کے ایک ایسے مسافر کا خیال آتا ہے جو رولر کوسٹر کی سواری کا سارا وقت پیٹی کسنے میں گزار دے۔ پھر جب یہ شخص پیٹی کس کرفارغ ہوگا اور اسے خیال ہوگا کہ اب وہ رولر کوسٹر کی تفریح سے لطف اندوز ہوگا تو اسی وقت رولر کوسٹر رک جائے گا اور اس شخص کو معلوم ہوگا کہ تفریحی سواری تو اپنے اختتام کو پہنچی۔
اب اس حالیہ سفر میں ہم سان ہوزے سے لاس اینجلس پہنچے تو فورا جستجو ہوئی کہ لاس اینجلس سے نندی جانے والی پرواز کس گیٹ سے جائے گی۔ معلوماتی الیکٹرانک بورڈ پہ اپنی پرواز کے بعد گیٹ کے اندراج میں انگریزی حروف ٹی بی آئی ٹی پائے۔ ہم ٹی بی ڈی نامی مخفف سے بخوبی واقف تھے، یعنی ٹو بی ڈیٹرمنڈ، یا دوسرے الفاظ میں گیٹ کا تعین ابھی نہیں ہوا ہے، انتظار فرمائیے۔ ہم نے سوچا کہ یقینا ٹی بی آئی ٹی  کا تعلق ٹی بی ڈی  سے ہوگا۔ ہم خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے مگر دل ہی دل میں ٹی بی ڈی کی اس بہن ٹی بی آئی ٹی کے معتعلق سوچتے رہے کہ اس نئی ترکیب میں ٹی بی تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، یہ آئی ٹی کس پیغام کا مخفف ہے۔ ٹی بی آئی ٹی سے ٹو بی انفورمڈ تک تو پہنچ گئے مگر اس آخری ٹی کی گتھی نہ سلجھی۔ یہاں دیکھتے دیکھتے پرواز کی روانگی میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ ایک گھنٹے پہلے تو سادہ سے سادہ پرواز کے گیٹ کا تعین ہوجاتا ہے، یہ تو پھر بین الاقوامی پرواز تھی۔ ایک گزرتے وردی والے کو روک کر پوچھا کہ آخر یہ ٹی بی آئی ٹی کیا بلا ہوتی ہے۔ اس نے بتایا کہ ٹی بی آئی ٹی سے مراد ہے ٹام بریڈلی انٹرنیشل ٹرمینل۔ وہ ٹرمینل اس جگہ سے کچھ فاصلے پہ تھا جہاں ہم کھڑے تھے۔ ہمیں اس موجودہ ٹرمینل سے باہر نکل کر پیدل چل کر ٹام بریڈلی انٹرنیشل ٹرمینل جانا تھا۔ ہمارے پائوں تلے زمین نکل گئی۔ کیا ایک بار پھر ہماری پرواز نکل جائے گی؟ اب کیا تھا، سرپٹ ٹام بریڈلی انٹرنیشل ٹرمینل کی طرف دوڑے۔ وہاں پہنچ کر سیکیورٹی کی لمبی قطار میں لگنا چاہا تو معلوم ہوا کہ ہمیں سان ہوزے سے اس دوسری پرواز کا جو بورڈنگ پاس ملا تھا وہ نہیں چلے گا، سامنے فجی ائیرویز کے کائونٹر سے نیا بورڈنگ پاس حاصل کرنا ہوگا۔ بھاگم بھاگ فجی ائیرویز کے کائونٹر پہنچے۔ وہ کائونٹر قریبا سنسان پڑا تھا۔ ایک شخص کمپیوٹر کے اسکرین کو گھور رہا تھا۔ اس کی توجہ ہماری طرف ہوئی تو ہم نے اپنے دوسرے بورڈنگ پاس دکھائے اور نئے بورڈنگ پاس حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ تیزی سے کام میں جٹ گیا اور ذرا سی دیر میں نئے بورڈنگ پاس پرنٹ کر کے ہمارے ہاتھوں میں تھما دیے۔ اب ایک بار پھر ہم سیکیورٹی کی لمبی قطار میں تھے۔
نوگیارہ کے دہشت گردی کے واقعات کے بعد ہوائی سفر میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ پہلے جہاز میں چڑھنے سے پہلے آپ کی ہلکی پھلکی تلاشی ہوتی تھی۔ نوگیارہ کے واقعات کے بعد یہ تلاشی بہت تفصیلی ہوگئی۔ پھر ایک جوتا بمبار آیا۔ اور اس جوتا بمبار کی ناکام کاروائی کے بعد ہوائی مسافروں کے جوتے چیک کیے جانے لگے۔ پھر ایک کیمیا بمبار آیا۔ اس کیمیا بمبار کی ناکام کاروائی کے بعد پانی اور رقیق اشیا کو روکا جانے لگا۔ عنقریب وقت آئے گا کہ ہوائی مسافر احرام پہن کر سیکیورٹی کی قطار سے گزریں گے کہ بھائی جو چاہے چیک کرلو، اور جہاں چاہو ہاتھ ڈال دو۔






Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?