Friday, October 02, 2015

 

دو چمچے









ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اڑتالیس

 ستمبر اٹھائیس،  دو ہزار پندرہ


دو چمچے



طویل ہوائی سفر میں سب سے صبرآزما مرحلہ اس وقت آتا ہے جب آپ ایک لمبے سفر کے بعد کسی ایسی جگہ پہنچیں جو آپ کی منزل مقصود سے بہت نزدیک ہو مگر منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے آپ کو اس بیچ کی جگہ پہ جہاز بدلنے ہوں اور دوسرے جہاز کے چلنے میں کئی گھنٹے ہوں۔ آپ کے پاس وقت بہت ہوتا ہے اور کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ ہم لاس اینجلس سے نندی پہنچنے پہ اسی پریشانی میں مبتلا تھے کہ نندی میں انتظار کے وہ چند گھنٹے کیسے گزاریں گے۔ مگر پھر قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ ہمیں نندی پہنچتے ہی ایک لڑائی میں جوجھ جانے کا موقع مل گیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ نندی ہوائی اڈے پہ فجی کا انتظام کچھ ایسا تھا کہ ہمیں جہاز سے اتر کر ایک حفاظتی چوکی سے گزر کر کمرہ انتظار تک پہنچنا تھا۔ ہمارا سامان اسکینر سے گزرا تو الارم بول اٹھے۔ پھر ہمارے سامان میں موجود ایک خاص بیگ کو اسکینر میں آگے پیچھے کر کے اس کے اندر موجود اشیا کا جائزہ لیا گیا۔ اس تفصیلی جائزے کے بعد ہم سے پوچھا گیا کہ آیا اس مخصوص بیگ میں چمچے تھے۔ بیگ میں واقعی دو چمچے تھے۔ ہم نے بیگ سے دونوں چمچے نکال کر دکھا دیے کہ ہاں دیکھو، یہ دو بے ضرر چمچے واقعی ہمارے ساتھ سفر کررہے ہیں۔ ایک محافظ نے ہمارے ہاتھ سے چمچے لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے چمچے ضبط ہوتے ہیں، ہم چمچوں کے بغیر جا سکتے ہیں۔ ہمیں نندی میں لڑ کر انتظار کا وقت کاٹنے کا موقع صاف نظر آیا۔
کیوں بھئی، تم ہمارے یہ چمچے کیوں ضبط کر رہے ہو؟ ہم نے پوچھا۔
لوہے کے چمچوں کا شمار ممنوعہ اشیا میں ہوتا ہے، اس لیے چمچے تمھارے ساتھ آگے نہیں جا سکتے۔ ہمیں بتلایا گیا۔
چمچے ممنوعہ کیوں ہیں؟ ہمیں وہ کاغذ دکھائو جس پہ تمھارے صاب توپ بہادر کا یہ حکم تحریر ہے کہ لوہے کے چمچے ہوائی مسافروں کے ساتھ جہاز میں نہیں جا سکتے۔
ہمیں انتظار کرنے کو کہا گیا اور پھر کچھ ہی دیر میں ہمارے سامنے ایک باتصویر کاغذ رکھ دیا گیا۔ اس کاغذ پہ پستول، چھری، اور جہاز کے اغوا میں دوسری مستعمل اشیا کے ساتھ ممنوعہ چیزوں کی فہرست میں لوہے کے چمچے بھی موجود تھے۔
اب ہم کیا کریں؟ کس طرح لڑائی جاری رکھیں؟
تمھاری یہ فہرست بے حد فضول ہے۔ دوسرے ہوائی اڈے لوہے کے چمچوں کو ممنوعہ شے نہیں گردانتے۔ دیکھو، ہم ابھی لاس اینجلس سے آرہے ہیں، وہاں تو یہ چمچے نہیں ضبط کیے گئے۔ پھر انہیں یہاں نندی میں روکنے کی کیا تک ہے؟
جواب آیا کہ لاس اینجلس کی بات لاس اینجلس والے جانیں۔ یہ نندی کا ہوائی اڈہ ہے، یہاں نندی والوں کی چلے گی۔ اور یہاں کا حکم یہی ہے کہ لوہے کے چمچے ہوائی مسافروں کے ساتھ نہیں جا سکتے۔
نندی کے ظالم حکام ہمارے بے حد کارآمد چمچے ہتھیانے کے لیے تلے بیٹھے تھے۔
ہم مختصر سامان کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ چاروں مسافر اپنے اپنے بیک پیک کے ساتھ تھے۔ صرف ایک بیگ چیک ان کیا گیا تھا جس میں عام استعمال کی مائع اشیا تھیں۔ ہم نے تجویز پیش کی کہ ہم یہ دو چمچے چیک ان کیے جانے والے بیگ میں رکھنے کے لیے تیار تھے۔ تجویز اچھی تھی مگر اس پہ عمل درآمد مشکل تھا کیونکہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ لاس اینجلس سے آنے والے جہاز سے اترنے کے بعد ہمارا بیگ کہاں تھا۔ اگر ہم چمچوں کو چیک کرانا چاہتے تھے تو ہمیں دوسرے راستے سے جانا ہوگا۔ ہم امیگرشن سے گزر کر باہر نکلیں گے، اور پھر دوبارہ اندر آتے ہوئے فجی ائیرویز کے کائونٹر پہ کسی بیگ میں یہ چمچے ڈال کر بیگ کو چیک ان کرسکتے تھے۔ ہم نے کچھ سوچا اور اس سلسلے کی جھنجھٹ سے بچنے کے لیے ایک دوسری تجویز پیش کردی۔ ہم نے اہل کاروں سے کہا کہ کیوں نہ وہ یہ چمچے سڈنی جانے والے جہاز کے عملے کو دے دیں۔ ان کو عملے پہ تو بھروسہ ہے کہ وہ ان چمچوں کی مدد سے جہاز کو اغوا نہیں کریں گے؟ سڈنی پہنچنے پہ جہاز کا عملہ ہمیں ہمارے چمچے واپس کرسکتا تھا۔ جواب آیا کہ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ اہل کار سڈنی جانے والے جہاز کے عملے کو تلاش نہیں کرسکتے تھے۔ اب کیا کریں؟ لڑائی کو کیسے طوالت دیں؟ ہم نے کہا کہ ہم ان اہل کاروں کے افسران سے ملنا چاہتے تھے۔  انہوں کہا کہ ہم اپنا رونا گانا ائیرلائن کے عملے سے کریں؛ وہاں شاید ہماری دال گلے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں اس چوکی سے گزرنے کے بعد فجی ائیرویز کا عملہ کہاں ملے گا۔ ہم اپنے دو عزیز چمچے ان سیاہ رو اہل کاروں کے پاس چھوڑ کر بتائے ہوئے راستے پہ چل پڑے۔ فجی ائیرویز کے لائونج میں موجود خاتون نے ہماری بات غور سے سنی اور پھر ہمارے ساتھ چل پڑی کہ میں سیکیورٹی عملے سے بات کر کے معاملہ صاف کرتی ہوں۔ وہ آگے تھی، اور ہم اس کے پیچھے۔ ہم پانچوں کچھ ہی دیر میں اسی چوکی پہ پھر پہنچ گئے۔ یہاں فجی ائیرویز کی خاتون نے محافظ عملے سے بات کی مگر ان اہل کاروں کی رال تو ہمارے چمچوں پہ ٹپک رہی تھی۔ فجی ائیرویز کی خاتون کو ٹکا سا جواب دے دیا گیا کہ لوہے کے چمچے ہوائی مسافروں کی تحویل میں نہیں دیے جاسکتے۔ ہم نے اپنی شرافت کا لاکھ ڈھنڈورا پیٹا کہ دیکھو لاس اینجلس سے نندی کی دس گھنٹے کی پرواز میں ہم نے ان لوہے کے چمچوں کو استعمال کرتے ہوئے جہاز کو نہیں اغوا کیا تو اب نندی سے سڈنی کی چار گھنٹے کی پرواز میں بھلا ایسا کیوں کریں گے، مگر ان مرد ناداں پہ ہرطرح کا کلام نرم و نازک بے اثر تھا۔ انہوں نے ہماری حجت ماننے سے انکار کیا اور چمچے اپنے پاس ہی رکھے۔ ہم دل پہ جبر کر کے اپنے وہ پیارے دلارے دو چمچے نندی کے اہل کاروں کے پاس چھوڑ آئے۔ اور دل ہی دل میں یہ سوچ کر چھریاں چلتی رہیں کہ اس شام کس طرح بلند قہقہوں کے درمیان ان اہل کاروں نے ہمارے چمچوں سے مزے لے لے کر کھانا کھایا ہوگا۔




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?