Saturday, June 13, 2015

 

کوئی ہے جو تعمیر کی بات کرے



جون چھ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چوالیس


کوئی ہے جو تعمیر کی بات کرے

 

برما کے روہنگیا پریشان ہیں۔ ان کی زمین ان پہ تنگ کردی گئی ہے۔ ہزاروں روہنگیا کشتی میں سوار سمندر میں بھٹک رہے ہیں۔  وہ عافیت کے کسی ساحل پہ لنگر انداز ہونا چاہتے ہیں مگر اس علاقے میں کوئی خوشحال ملک انہیں قبول کرنے کوآمادہ نظر نہیں آتا۔
یہ بات درست ہے کہ دنیا ہمیشہ کمزوروں کے لیے ظالم رہی ہے اور ہر دور میں طاقتور نے کمزور کا جینا دوبھر کیا ہے؛ یہ تو موجودہ عہد کا تیزرفتار میڈیا ہے جو ذرا سی دیر میں یہ بری خبریں دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم جس دور میں زندہ ہیں اس سے زیادہ پرآشوب زمانہ شاید ہی گزرا ہو۔ بات منطقی ہے مگر کیا کیجیے کہ دل نہیں مانتا۔ ٹھیک ہے کہ ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا آیا ہے مگر آج ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا کیا جائے کہ یہ آندھی تھم جائے؟
غور کیجیے تو موجودہ عہد میں ممالک اور علاقوں کے تین درجے نظر آتے ہیں۔ اول درجے میں یورپ کے ممالک اور وہ ممالک ہیں جہاں یورپ سے جاکر لوگ بسے ہیں۔ ان علاقوں میں نظم و ضبط ہے۔ ان لوگوں کو جدید حکمرانی کا طریقہ آتا ہے جس میں کثیر تعداد میں لوگوں کو سنبھالنا ہے، عوام کی تعلیم اور صحت کا مناسب انتظام کرنا ہے، اور جدید معیشت کو سبک رفتاری سے چلانا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو۔ جدید معاشرے کو چلانا ان ہی کو تو آئے گا جنہوں نے یہ جدید معاشرہ بنایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے چھاپہ خانہ ایجاد کیا ہے؛ جنہوں نے صنعتی انقلاب بپا کیا ہے؛ جنہوں نے یہ جدید ، عالمگیر معاشی نظام بنایا ہے جس میں دور دراز سے وسائل درآمد کر کے انہیں کارخانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور پھر دور و نزدیک بسنے والوں کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بیماریوں کو پچھاڑ کر انسانی آبادی کو زود افزوں بڑھوتری پہ لگایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے
گاڑی ایجاد کی ہے۔ آخر وہی لوگ تو گاڑی چلانے کی تمیز رکھیں گے جنہوں نے بڑے پیمانے پہ گاڑیاں بنائی ہیں۔ یا یوں ہو کہ گاڑی کوئی ایجاد کرے، مگر گاڑی چلانے کی تمیز وہاں آجائے جہاں لوگ مصلے پہ بیٹھے محض دعا کر رہے ہیں؟
جدید جمہوریت بھی ان ہی لوگوں کا وضع کردہ نظام ہے۔ کہ جب عوام کو صاف پانی فراہم کیا گیا، محلوں میں صفائی ستھرائی بڑھی،غذائیت کے بارے میں معلومات بڑھی، اور ساتھ ہی کارگر دوائیں بننے لگیں تو آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اب ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ مگر یہ پرانے زمانے کے بھیڑ بکریوں کی طرح کے لوگ نہ تھے؛ یہ پڑھے لکھے، صاحب الرائے، باشعور لوگ تھے۔ اب ممالک کو جمہوری انداز سے چلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
سلطانی جمہور کا زمانہ آیا اور یہ پیمانہ بنا کہ جہاں جمہوریت نہیں ہے وہاں تہذیب نہیں ہے۔
دوسرے درجے پہ وہ ممالک ہیں جو صنعتی انقلاب میں آگے آگے تو نہ تھے مگر ساتھ ہی نوآبادیاتی تسلط کا اس بری طرح شکار نہ رہے جیسے دوسرے رہے۔ ان لوگوں نے تیزی سے مغرب کے طریقے سیکھ لیے۔
تیسرے نمبر پہ وہ ممالک اور علاقے ہیں جو نوآبادیاتی نظام کا بھرپور طور پہ حصہ رہے۔ ان علاقوں کی سمت نو آبادیاتی نظام میں یکسر تبدیل کردی گئی۔ ان کی معیشت بدل دی گئی۔ ان کو روایتی توانائی کے ذرائع سے ہٹا کر درآمدی توانائی پہ لگا دیا گیا۔ ان کے تجارت کے راستے بدل دیے گئے۔ اور پھر ایک روز آقا واپس یورپ یا امریکہ چلے گئے۔ آقائوں کے جانے کے بعد جن لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں کا نیا نظام سنبھالا انہیں اسے چلانا نہیں آتا تھا۔ افراتفری بڑھی، اور بعض جگہوں پہ دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ ممالک اور علاقے پستی کی طرف مائل ہیں۔
اب کیا ہو؟ بہتری کا راستہ کیسے نکلے؟ جن علاقوں میں افراتفری ہے وہاں قرار کیسے آئے گا؟  وہاں کے کمزور اور غریب لوگ جو مستقل پس رہے ہیں کب سکون کا سانس لیں گے؟ ان کو اور ہمیں کوئی مثبت خبر کب سننے کو ملے گی؟ یہی وہ سوال ہے جو بہت سے دلوں میں ہے۔ اور اسی سوال کے حتمی اور بافہم جواب سے ظلم کی آندھیاں تھمنے کی امید بندھی ہے۔


Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?