Tuesday, June 02, 2015

 

مستونگ




مئی اکتیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تینتالیس


مستونگ


لگتا ہے کہ ہمیں صرف ایک کام آتا ہے، لوگوں کو مارنا۔ پاکستان میں لوگ مستقل مارے جارہے ہیں۔ کبھی مذہب کی بنیاد پہ، کبھی فرقے کی بنیاد پہ، اور کبھی لسانی بنیاد پہ۔ اس جلادی کا تازہ ترین مظاہرہ مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں ہوا جہاں دہشت گردوں نے پشین اور کوئٹہ سے کراچی جانے والی بسوں کو روک کر مسافروں کو اتارا اور پھر چن کر انیس مسافروں کو قتل کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ایف سی کے یونیفارم میں ملبوس مسلح افراد نے بسوں کو روک کر تمام مرد مسافروں کو بس سے اترنے کا حکم دیا۔ مرد مسافروں کو بس سے اتار کر انہیں آگے پہاڑوں میں لے جایا گیا جہاں لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کیے گئے اور پشتون اور بلوچ مردوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ پھر پشتون مسافروں کو قطار سے کھڑا کر کے گولیاں ماری گئیں اور بلوچ مسافروں کو واپس بھاگ جانے کو کہا گیا۔
یہ بھی واضح رہے کہ مستونگ کے قتل عام کی ذمہ داری یونائیٹڈ بلوچ آرمی نامی گروہ نے قبول کرلی ہے۔
اگر آپ اس واقعے میں گہری سازش تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں تو واضح بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں پنجابیوں اور مہاجروں کو چن چن کر مارنے کے بعد کئی بلوچ حریت پسند نہ صرف یہ کہ پشتونوں کو اپنے علاقوں میں نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ پشتون ان کے علاقے سے گزریں۔ بلوچوں کی پشتونوں سے دشمنی کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ اول یہ کہ پشتونوں کو پاکستان سے اس طرح کا بیر نہیں ہے جیسا بہت سے بلوچوں کو ہے اور ان بلوچوں کو پشتونوں کی پاکستان سے یہ نیم رضامندی بہت بری لگتی ہے، اور دوئم یہ کہ سرحد کور، وہ عسکری تنظیم جو بلوچستان میں امن قائم رکھنے کے کام پہ مامور ہے، مکمل طور پہ پشتونوں سے بھری ہوئی ہے۔
مگر پاکستان میں کسی بھی بات کو سیدھے طریقے سے سمجھنا منطق کی تذلیل خیال کیا جاتا ہے۔ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی سب ایک دوسرے کی طرف انگلی سے اشارہ کر رہے ہیں۔ لولی لنگڑی انتظامیہ سے شروع کیجیے: حکومت کے چمچے اس قتل عام کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کو تلاش کررہی ہے۔ بیرون ملک مقیم بلوچ حریت پسند اس کاروائی کو پاکستانی فوج کی سازش بتا رہے ہیں؛ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کے اہلکار بلوچوں کی صفوں میں گھس گئے ہیں اور اس طرح کے قتل عام کا مقصد بلوچوں اور پشتونوں کو آپس میں لڑانا ہے۔
غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اور صرف باتیں ہی باتیں۔ گہری سازش تلاش کرنے والے ان دانائوں سے ہم صرف یہی درخواست کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی اپنی منطق اس ماں کے سامنے پیش کریں جس نے اپنے بیٹے کو اس قتل عام میں کھویا ہے، یا اس باپ کو سنائیں جس کا سپوت اس سے چھین لیا گیا۔
اور حکومت سمیت تمام لوگوں کی نااہلی صرف یہیں ختم نہیں ہوتی کہ یہ اس معاملے میں کسی طرح کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ معاملہ اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمیں ان کرتا دھرتا لوگوں میں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس کے پاس مستقل کے بارے میں کوئی حکمت عملی ہو۔ چنانچہ مستونگ کے قتل عام پہ آنسو ضرور بہائیے مگر کچھ آنسو آئندہ آنے والے دنوں کے لیے بھی سنبھال کر رکھیے کہ قتل و غارت گری کے یہ واقعات مستقبل میں ہوتے رہنے کا امکان دیواروں پہ لکھا ہے۔


Labels: , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?