Tuesday, May 26, 2015

 

نجم الحسن





مئی تئیس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بیالیس


نجم الحسن

 

سورج نکلے کچھ وقت گزر چکا تھا، کمرے میں روشنی بھر گئی تھی۔ آنکھ کھلی تو بہت دیر چھت کو تکتا رہا۔ کل کا زخم ابھی تک ہرا تھا۔ نجم الحسن کئی دنوں سے اسپتال میں انتہائی نگہداشت میں رہے تھے۔ جب ان کا جسم زندگی کا بوجھ لے کر چلنے سے انکاری ہوگیا تو ڈاکٹروں نے منفسہ [وینٹیلیٹر] لگا دیا۔ عمل تنفس مشینی ہوگیا۔ پھر انتظار ہونے لگا کہ جسم میں جان نظر آئے تو منفسہ ہٹا لیا جائے اور پھیپھڑے ایک بار پھر متحرک ہوجائیں۔ مگر کئی دن انتظار کے بعد بھی جب اس بہتری کا کوئی امکان نظر نہ آیا تو ڈاکٹروں نے مریض کے پیاروں سے مشورہ کر کے منفسہ ہٹانے کا عمل شروع کردیا۔ منفسہ ہٹانا دراصل گلا گھونٹنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مریض کو جب سانس نہیں ملتی تو کچھ دیر کی تکلیف کے بعد مر جاتا ہے۔ اسی تکلیف کو کم کرنے کے لیے منفسہ ہٹانے سے پہلے مریض کو منشیات دی جاتی ہیں تاکہ مریض نشے کی حالت میں بہلا، جان سے گزر جائے۔
دنیا سے باہر چہار سو موت کا بے کراں سمندر موج زن ہے۔ کائنات کا جشن زندگی ہے اور زندگی کا جشن جوانی ہے۔ افسوس کہ نجم کا جشن جوانی اکتیس سال کی عمر میں ختم ہوگیا تھا۔ ان کے گردوں نے رفتہ رفتہ جواب دینا شروع کردیا۔ دو سال پہلے کیلی فورنیا آئے تھے تو کہا کرتے تھے کہ امریکہ کی جدید طبی سہولتوں کی وجہ سے چل رہا ہوں، ترقی پذیر ملک میں ہوتا تو کب کا مرچکا ہوتا۔ ترقی پذیر ممالک میں ڈارون کے نظریات پھرتی سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ممالک کمزور لوگوں کی ذرا سی دیر میں چھٹی کردیتے ہیں۔
جن گردوں کے ساتھ نجم پیدا ہوئے تھے، جب وہ ناکام ہوئے تو وہ بہت عرصہ بستر علالت پہ رہے۔
میں ہردفعہ جب ڈرائیونگ لائسینس نیا کرنے جاتا ہوں تو اس خانے کو ضرور بھرتا ہوں جس میں حامی بھری جاتی ہے کہ حادثے میں مرنے کے بعد میرے مختلف اعضا ضرورت مند مریضوں کو دے دیے جائیں۔ دل، گردے، آنکھیں، جو جو کارآمد اعضا میرے مردہ جسم سے نکال سکو ضرور نکال لینا کہ زندگی میں تو شاید کسی کے کام نہ آسکا، مر کر ہی کسی کے کام آجائوں۔
ایسا ہی ایک شخص کسی حادثے میں مرا تو نجم کو اس کے گردے عطیے میں مل گئے۔  ان کے جسم میں پھر سے زندگی آگئی۔ مگر ان کے جسم میں خرابی گردوں کی نہیں تھی بلکہ اس نظام کی تھی جو گردوں کو فعال رکھتا ہے۔ اس خراب نظام نے رفتہ رفتہ نئے گردوں کو بھی ناکارہ کردیا۔ اب نجم کی عمر اور گزر چکی تھی۔ اپنے اپنے گردوں کی ناکامی کے بعد نئے گردوں کی چاہت والے اور بھی مریض قطار میں موجود تھے۔ اپنی عمر کی وجہ سے اب کی بار نجم کو اس قطار میں کسی قدر پیچھے لگنا پڑا۔ مگر ان کی قسمت اچھی تھی۔ ایک بار پھر نئے گردے اسپتال میں آئے اور کسی وجہ سے ان سے عمر میں چھوٹے مریض ان گردوں کو استعمال نہ کر پائے۔ نجم کی باری آگئی اور ایک دفعہ پھر جراحی سے ان کے جسم میں نئے گردے لگا دیے گئے۔ ایک دفعہ پھر ان کے جسم میں زندگی بڑھ گئی۔ مگر یہ واضح تھا کہ گردوں کی جراحی کا یہ کام آخری بار ہورہا تھا۔ اب یہ گردے ناکام ہوئے تو ان کی اتنی عمر ہوچکی ہوگی کہ انہیں نئے گردوں کی قطار میں کھڑے ہونے کی بھی اجازت نہیں ملے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ کئی سالوں کے استعمال کے بعد، بانسٹھ سال کی عمر میں، جب یہ تازہ گردے بھی جواب دے گئے تو نجم کو زندہ رکھنے کے لیے دعائوں کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔ دعا اور منفسہ، اور پھر منفسہ نکالنے کے بعد صرف دعا۔ وہ دعا جس کی باریابی کا کوئی امکان موجود نہ تھا۔


Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?