Tuesday, May 12, 2015

 

سوٹ کیس میں بند وہ آٹھ سالہ لڑکا





 
مئی دس،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چالیس


سوٹ کیس میں بند وہ آٹھ سالہ لڑکا


رات کا اگلا پہر ہے۔ خامشی ہے۔ لوگ اس محلے میں اطمینان سے سو رہے ہیں۔ ان مکینوں کو وہ اطمینان ہے جو ایک متوازن، مستحکم، منظم معاشرے کا شہری ہونے کے ناتے ہوتا ہے۔  مگر افسوس یہ ہے کہ دنیا میں ایسی جگہیں بہت کم ہیں۔ اس وسیع دنیا میں آج زیادہ تر جگہیں ایسی ہیں جہاں انتشار ہے۔ جہاں حکومت کمزور ہے۔ جہاں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں ہیں۔ ان میں سے بیشتر جگہیں وہ ہیں جو کبھی نوآبادیاتی نظام کا حصہ تھیں اور آزادی حاصل ہونے کے بعد سنبھل نہ پائی ہیں۔
مجھے اس آٹھ سالہ لڑکے پہ ترس آتا ہے۔ اس کا نام ابو ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے ایک تکیے کو مضبوطی سے اپنے چہرے کے ساتھ لگا کر یہ جانچنے کی کوشش کی تھی کہ اس طرح کی حالت میں آپ سانس کس طرح لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چھوٹے سے سوٹ کیس میں کپڑوں کے درمیان لٹا دیا جائے تو کیا ہوا ان سارے کپڑوں سے گزر کر آپ کی ناک تک پہنچ پائے گی؟ تکیے کو اس طرح مضبوطی سے اپنے چہرے سے لگانے سے مجھے معلوم ہوا کہ اس حالت میں سانس لینا کس قدر دشوار کام ہے۔ مجھے ابو کی تکلیف کا اندازہ ہوا۔ ابو کو ایک چھوٹے سے سوٹ کیس میں لٹا کر ہسپانیہ کے حصے سبتہ میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہسپانیہ کا یہ حصہ افریقہ کے شمال مغربی کونے میں واقع ہے اور اس کی سرحد مراکش سے لگتی ہے۔ ابو کو مراکش سے سبتہ لے جانے کی کوشش تھی۔ سرحد سے کتنے فاصلے پہ ابو کو سوٹ کیس میں لٹا گیا تھا؟ وہ سوٹ کیس کتنی دور زمین پہ پہیوں کی مدد سے گھسیٹا گیا؟ ایک آٹھ سالہ بچے نے سوٹ کیس میں اس طرح گھسیٹے جانے پہ کیا سوچا ہوگا؟ اسے کیا خیال آیا ہوگا کہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ اس سوٹ کیس میں اس طرح سکڑ کر لیٹنے پہ اس کی سانس تو یقینا رک رہی ہوگی؟ ابو کو یہ سب کچھ برا تو لگ رہا ہوگا؟ اس قصے کا بقیہ حصہ تو آپ کے علم میں ہے۔ جو عورت اس سوٹ کیس کو لیے مراکش سے سبتہ میں داخل ہورہی تھی، وہ کچھ گھبرائی ہوئی تھی۔ عورت کی گھبراہٹ دیکھ کر امیگریشن حکام نے اس سے کہا کہ وہ سوٹ کیس ایکسرے مشین میں سے گزارے۔ سوٹ کیس ایکسرے مشین سے گزرا تو عکس میں سوٹ کیس میں سکڑا لیٹا بچہ صاف نظر آگیا۔ سوٹ کیس کھولا گیا تو ابو گھبراہٹ میں فورا اٹھ کھڑا ہوا۔ ابو نے یقینا سکون کا سانس لیا ہوگا۔ وہ پکڑا گیا تھا مگر اسے اب سانس تو ٹھیک آرہی تھی۔
کاش میں اس آٹھ سالہ بچے کے پاس ہوتا۔ میں اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے چھاپے خانے کی ایجاد سے صنعتی انقلاب تک، اور وہاں سے یورپی نوآبادیاتی نظام تک، اور آزادی کے بعد سے اب تک پرانی دنیا کے اکثر علاقوں میں مقامی حکمرانوں کی پے درپے ناکامیوں کی پوری کہانی سناتا۔ میں ہاتھ جوڑ کر اس بچے سے معافی مانگتا کہ ہم، وہ سارے لوگ، جو اچھی طرح پوری بات سمجھتے ہیں، مگر اب تک دنیا کے بڑے حصے کے ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے، دراصل مجرم ہیں، اس لڑکے کی تکلیف کے براہ راست ذمہ دار ہیں؛ ہماری نااہلی سمجھتے ہوئے بھی ہمیں معاف کردو۔ میں ابو سے کہتا کہ اسے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا؛ اور نہ ہی وہ لوگ کوئی غلط کام کرتے ہیں جو سبتہ کے گرد لگی حصاری دیوار پہ چڑھ کر بوسا [فتح]، بوسا کے نعرے لگاتے ہیں؛ اور نہ ہی وہ لوگ غلطی پہ ہیں جو لیبیا سے کشتی پہ بیٹھ کر اطالیہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں؛ اور نہ ہی کوئی قصور ان لوگوں کا ہے جو ترکی اور یونان کی باہمی سرحد غیرقانونی طور پہ عبور کر کے یورپی اتحاد کے کسی ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں؛ اور نہ ہی وہ لوگ غلط ہیں جو انڈونیشیا کے کسی چھوٹے سے جزیرے سے کشتی میں سوار ہو کر آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں؛ اور نہ ہی وہ لوگ مجرم ہیں جو جنوبی اور وسطی امریکہ کے مختلف علاقوں سے نکل کر میکسیکو اور امریکہ کی باہمی سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتنے سارے لوگ غلط کیسے ہوسکتے ہیں؟ غلطی تو ان کی ہے جو یا تو بات کو سمجھ ہی نہیں رہے، یا پوری بات سمجھتے ہوئے بھی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کررہے۔ میرے بچے، میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں۔ تمھارا جوتا اور میرا سر، مجھے جو چاہے سزا دو۔




Labels: , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?