Tuesday, May 05, 2015

 

بے چاری سبین




 مئی تین،  دو ہزار پندرہ

 ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انتالیس


بے چاری سبین

 
بے چاری سبین کو کیا خبر تھی کہ اس کی موت کے بعد ہر ملزم گروہ دوسرے کی طرف انگلی اٹھا کر کہے گا کہ ان سے پوچھیں، ہمارا بھلا سبین سے کیا لینا دینا، یہ قتل یقینا دوسروں نے کیا ہوگا؛ اور لوگ اپنے اپنے سیاسی خیالات کے حساب سے گروہوں میں بٹ جائیں گے؛ کوئی کسی گروہ کی بات کا یقین کرے گا، اور کوئی کسی دوسرے گروہ کی بات کا۔ سب تلاش کریں گے کہ سبین کے مرنے سے کس گروہ کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ سبین کی کامیابی یہ ہوتی کہ اس کی موت سے اس کے اس مشن کو جلا ملتی جو اس کی زندگی کا مقصد تھا۔ مگر ایسا نہ ہوا؛ سبین کا قتل سازشی تھیوری میں جکڑ گیا۔ سبین یوں بھی معصوم تھی کہ شاید اسے معلوم نہ تھا کہ بلوچستان میں پامالی حقوق انساں کے موضوع پہ گفتگو بلوچستان سے باہر پاکستان کے دوسرے علاقوں ہی میں ہوسکتی ہے۔ سبین نے اگر خواہش ظاہر کی ہوتی کہ بلوچستان کے موضوع پہ یہ سیمینار خاران کے کسی چھوٹے سے قصبے، یا تربت یا پنچ گور میں کیا جائے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ بلوچ حقوق انسانی کے علمبردار سبین کو، کہ وہ غیربلوچ تھی، کیا جواب دیتے اور سبین سے کیا عذر پیش کرتے۔ یا سبین اگر اس گفتگو میں ناظمہ طالب کے رشتہ داروں کو شامل کرنے کی پیشکش کرتی تو بلوچ جانوں کے نوحہ خواں کیا کہتے۔
اس بات میں کیا شک ہے کہ کئی اور ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ ناکام ریاست میں اپنی حفاظت کی ذمہ داری ہر شہری کی انفرادی زمہ داری ہوتی ہے۔ بے چاری سبین نے اپنی حفاظت کے لیے کچھ نہ کیا تھا۔ سبین کی گاڑی میں تو ڈیش کیمرہ بھی نہ تھا کہ ہم اس کیمرے کی فوٹیج کی مدد سے سبین کے قاتلوں تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہ وہ قاتل تھے جو شاید سبین کی گاڑی کے ساتھ ساتھ ٹی ٹو ایف سے چلے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ سبین گاڑی چلا رہی ہے اور سبین کا ڈرائیور پچھلی سیٹ پہ بیٹھا ہے۔ ان قاتلوں نے گاڑی کا ٹریفک اشارے پہ رکنے کا انتظار کیا اور پھر سیدھی طرف سے سبین کے سر کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ یہ لوگ سبین کو زخمی کرنے نہیں آئے تھے بلکہ جان سے مارنے آئے تھے اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔
پرانی دنیا میں جہاں لوگ ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں، ناکام ریاستوں میں گروہوں کا وفاق سے بدظن ہوجانا عام بات ہے۔ اگر ملک خوشحال ہو اور سب کو کھانا پینا ملتا رہے تو بات بنی رہتی ہے۔ کسی طرح یہ سلسلہ ٹوٹے تو مختلف علاقائی گروہ آزادی کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ پھر دیکھا جاتا ہے کہ وفاق کے پاس کس طرح کی عسکری طاقت ہے اور وہ کس حکمت عملی سے بغاوت پہ قابو پاتی ہے۔ اپنی اپنی حکمت عملیوں سے چین نے شین جیانگ کو، روس نے چیچنیا کو، اور بھارت نے کشمیر کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔
کسی بھی ناکام ریاست میں سب سے زیادہ تعریف کے قابل وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے کمزور طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمت سے اپنے اندر کی آواز کے حساب سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان ناکام ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پدر سالار معاشرہ ہے جہاں عورت کے لیے قدم قدم پہ مشکلات ہیں۔ ایسے میں کوئی عورت بہادری سے اپنا کام جاری رکھے تو اس کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایسی ہی ایک عظیم خاتون ثمر من اللہ ہیں جو پشتو زبان میں سماجی مسائل پہ فلمیں بناتی ہیں۔ پانچ سال پہلے جب ثمر من اللہ سان فرانسسکو آئیں تو مجھے ایک تقریب کے بعد ان کا ایک مختصر انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ اس کالم کے ساتھ وہ ویڈیو انٹرویو پیش کیا جارہا ہے۔






Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?