Tuesday, April 07, 2015

 

آغا حسن عابدی




اپریل پانچ،  دو ہزار پندرہ
 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پینتیس
 
آغا حسن عابدی

شاید سنہ دو ہزار دس یا گیارہ کی بات ہوگی۔ نہ جانے مجھے کیسے یہ خیال آیا کہ میں پاکستان میں بینکنگ کے بے تاج بادشاہ مرحوم آغاحسن عابدی کی زندگی کو کھنگالوں۔ میں آغا صاحب کے بارے میں وہ باتیں نہیں جاننا چاہتا تھا جو پہلے سے کتابوں میں درج تھیں اور جو دراصل زیادہ تر بی سی سی آئی سے متعلق تھیں۔ میں بی سی سی آئی سے زیادہ آغا حسن عابدی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ اس وقت تک آغا حسن عابدی کے انتقال کو پندرہ سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا تھا۔ میں ان لوگوں کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا جنہوں نے آغا حسن عابدی کو قریب سے دیکھا تھا اور ان کی باتیں سنی تھیں۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے چچا اسرار حسن سے بات کی۔ وہ کراچی میں موجود بی سی سی آئی کے پرانے لوگوں کو جانتے تھے۔ چچا نے ایک ایک کر کے مجھے ان لوگوں سے ملانا شروع کیا۔ میں اکبر بلگرامی صاحب سے ملا، پھر اے بی شاہد صاحب سے ملا اور اسی طرح میں نے نسیم خان صاحب کا بھی انٹرویو کیا۔ میرے چچا اسرار حسن انٹرویو دینے میں تردد کررہے تھے مگر میں کسی نہ کسی طرح ان سے بھی ایک مختصر انٹرویو نکلوانے میں کامیاب ہوگیا۔ میں صالح نقوی صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔ صالح نقوی صاحب کا انٹرویو اہم تھا کیونکہ وہ بی سی سی آئی کے مبینہ کالے کرتوتوں کا حساب امریکہ میں جیل یاترا سے چکا کر واپس پاکستان پلٹے تھے۔ نقوی صاحب کراچی میں تھے مگر علیل تھے۔ میں ان کا انٹرویو نہ کرپایا۔
گنے چنے یہ چار انٹرویو کر کے میں واپس کیلی فورنیا آگیا۔ پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ تین انٹرویو کے ٹیپ تو مجھے مل گئے، چچا کے انٹرویو کا ٹیپ غائب تھا۔ کیا وہ ٹیپ میں کراچی میں اپنےگھر بھول آیا تھا؟ یہی سوچ کر حیران ہوتا رہا۔ اکبر بلگرامی، اے بی شاہد، اور نسیم خان صاحبان کے انٹرویو تو میں نے انٹرنیٹ پہ شائع کردیے مگر اپنے چچا کا انٹرویو شائع نہ کرپایا۔ سال بھر بعد پھر پاکستان جانا ہوا تو ایک بار پھر اس ٹیپ کی تلاش ہوئی مگر وہ ٹیپ نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ وقت گزرتا گیا حتی کہ اس سال فروری میں چچاجان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پہ ایک دفعہ پھر مجھے ان کاانٹرویو یاد آیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مجھے وہ ٹیپ مل جائے۔ دل میں یہ امنگ اٹھی۔ میرے پاس جتنے پرانی ٹیپ پڑے تھے ان کی گرفت، کیپچر کرنے، کا کام شروع کیا۔ اس کام کے درمیان میں ایک ایسے ٹیپ پہ جس کا عنوان کچھ اور تھا چچا کا انٹرویو مل گیا۔ میری خوشی دیدنی تھی۔ چچا کے اس انٹرویو کی تدوین آج ہی مکمل کر کے میں نے اسے انٹرنیٹ پہ شائع کیا ہے۔
جس زمانے میں چچا بی سی سی آئی میں کام کرتے تھے میں نے چچا کے منہ سے کئی بار آغا حسن عابدی کا نام سنا تھا۔ دراصل آغا حسن عابدی بی سی سی آئی کے سب سے بڑے پیر کامل تھے جن کے ہاتھ پہ بینک کے تمام اہل کاروں کی بیعت معلوم دیتی تھی۔ یہ سارے لوگ مستقل آغا حسن عابدی کے نام کی مالا جپتے تھے۔ جب دل کی جراحی کے بعد آغا حسن عابدی صاحب نے شادی کی تو یہ لوگ مسکراتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے کہ آغا صاحب کا نیا دل ہے، یہ دل کسی کو تو دینا ہی تھا۔ یا جب آغا حسن عابدی نے اپنے لیے ایک ہوائی جہاز خریدا تو یہ باتیں ہوتیں کہ آغا صاحب کی خواہش ہے کہ ان کے اپنے پیدائش کے شہر لکھنئو کا ہوائی اڈہ بڑا ہوجائے تاکہ وہاں آغا صاحب کا بوئنگ جہاز اتر سکے۔ مگر اس ہنسی ٹھٹھول میں بھی ان لوگوں کی باتوں سے آغا حسن عابدی کا احترام جھلکتا تھا۔ یہ سب لوگ آغا حسن عابدی سے بہت متاثر تھے کیونکہ خود آغا صاحب منازل ثروت طے کرتے کرتے وہاں پہنچ چکے تھے جہاں وہ فلسفے کی طرف مائل تھے۔ وہ دنیا میں انسان کے مقصد کی بات کرتے اور اپنے بینک میں کام کرنے والوں کو بتاتے کہ کس طرح کسی کی مدد کرنے سے خود مدد کرنے والا انسان مستفید ہوتا ہے۔
کیا بحیثیت بینک بی سی سی آئی واقعی منشیات کے کام میں حاصل کیے جانے والے منافع کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانے کے کام میں ملوث تھا؟ میں اس بات کا حتمی جواب نہیں دے سکتا۔ مگر میں پاکستان میں موجود رائے عامہ سے بخوبی واقف ہوں۔ اور عوامی رائے یہ ہے کہ بی سی سی آئی ترقی پذیر دنیا کا حمایتی ایک ایسا بینک تھا جو تیزی سے پھیل تھا اور اسی وجہ سے مغربی دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ کہ بی سی سی آئی کو بند کر کے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مغرب کے بنائے گئے نظام بینکاری کو استعمال کرتے ہوئے مغرب کو آنکھیں نہیں دکھائی جا سکتیں۔ کہ ابو ندال سے لے کر مانویل نورییگا تک جو لوگ مغرب میں ناپسندیدہ ہیں ان کے بینکار دوست بھی مغرب میں ناپسندیدہ ہی ہوں گے۔ بی سی سی آئی کو بند کر کے ترقی پذیر دنیا کو باور کرایا گیا ہے کہ نوآبادیاتی نظام ختم نہیں ہوا ہے بلکہ محض اس نظام کی شکل بدلی ہے اور جس نے اس نظام سے بغاوت کرنے کی کوشش کی، اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔






Labels: , , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?