Tuesday, March 24, 2015

 

بل گیٹس اور پولیو کا قلعہ












مارچ بائیس،  دو ہزار پندرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تینتیس


بل گیٹس اور پولیو کا قلعہ
 
جو لوگ پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور کچھ کچھ عرصے بعد وہاں جاتے ہیں ان کو لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی آبادی پچھلی بار سے دگنی ہوگئی ہو۔ آبادی میں اس طرح کے اضافے کے باوجود پاکستان میں رہنے والے لوگوں کو ڈر ہے کہ کہیں کسی حیلے بہانے سے مغربی طاقتیں ان کی نس بندی نہ کروادیں، کہیں ان کے بچے ہونا نہ بند ہوجائیں۔ چند برس پہلے اس خوف کا مظاہرہ میرے سامنے اس وقت ہوا تھا جب کراچی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کافی بے تکلف گفتگو کے دوران اس شخص نے روڈ پہ لگے ایک اشتہار کی طرف اشارہ کر کے مجھے سمجھایا تھا کہ، اب اس سوراخ والی گولی کا اشتہار دیکھیں۔ اتنی کم قیمت والی چیز کے لیے اتنی اشتہار بازی۔ آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے کوئی چکر ہے؟
میں نے کریدا کہ آخر اس شخص کو اس ٹافی کے اشتہار میں کیا چکر نظر آرہا ہے۔ اس شخص نے مجھے رازداری سے سمجھایا کہ، ضرور اس گولی میں کوئی ایسی چیز ملی ہے جس سے مرد نامرد ہوجائیں اور عورتیں بانجھ ہوجائیں؛ مغربی طاقتوں کو یہ بات بالکل پسند نہیں آرہی کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا میں بڑھ رہی ہے۔
شرح آبادی میں ممکنہ کمی کا یہ خوف کچھ دن پہلے ایک ایسے مضمون میں نظر آیا جو گلوبل سائنس نامی پاکستانی جریدے میں شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون دہری شخصیت رکھتا ہے کیونکہ مضمون کا پہلا حصہ پڑھ کر قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ مصنف پولیو کی ویکسین کے سخت خلاف ہے، مصنف کے خیال میں اس ویکسین میں ایسی کیمیات ہیں جو بانجھ پن کا سبب بن سکتی ہیں۔ مگر پھر مضمون کے دوسرے حصے میں مصنف ان ناقدین کا بیان لکھتا ہے جنہوں نے مضمون کا پہلا حصہ پڑھ کر مصنف کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مضمون کا دوسرا حصہ، پہلے حصے کی نفی کرتا ہے۔
قصہ مختصر، پورا مضمون پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ ایک بار پھر ایک سائنسدان نما مولوی (یا مولوی نما سائنسدان) میری زندگی کے دس بارہ منٹ ضائع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس مضمون کے اول حصے میں پولیو کی ویکسین پہ شک کی دو وجوہات کا بیان ہے۔  اول یہ کہ پولیو کے علاوہ اور بھی تو موذی بیماریاں ہیں جن کا شکار بہت سے لوگ ہوتے ہیں، پھر پولیو پہ اتنا زور کیوں؟ اور دوسرا شک یہ کہ آخر پولیو کی ویکسین کی حمایت میں مولویوں سے کیوں فتوے لیے جارہے ہیں؟
اس مضمون کے لکھاری اور ان جیسے بھٹکے ہوئے ذہنوں والے دوسرے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ ہاں دنیا میں بہت سی بیماریاں ہیں، ہاں پاکستان میں پولیو کے علاوہ ایسے متعدد امراض ہیں جن سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد پولیو سے گھائل ہونے والے بچوں سے کہیں زیادہ ہے، مگر پولیو ایک ایسا مرض ہے جو دنیا سے قریبا ختم ہوچکا ہے۔ ہندوستان جیسی بڑی آبادی والے ملک سے ختم ہونے کے بعد اب یہ مرض دنیا کے چند ہی حصوں میں بچا ہے۔ اسلام کا قلعہ ہرممکن کوشش کررہا ہے کہ اس مرض کو اپنی امان میں رکھے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف ایک امیر کبیر شخص ہے جسے نہ تو حوروں کا لالچ ہے اور نہ آگ کا خوف۔ اس مالدار شخص کی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے اس کے منہ پہ ایک گہری مسکراہٹ ہو، اور وہ مسکراہٹ یہ سوچ کر ہو کہ اس نے ایک بیماری، صرف ایک بیماری کو دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ وہ شخص اپنی اس آخری مسکراہٹ کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہے۔ اب اگر کسی کا خیال ہے کہ معاشرے میں پولیو کے بجائے کسی دوسری بیماری کے خلاف کام  ہونا چاہیے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ سینہ ٹھونک کر سامنے آئے اور اپنی رقم اور محنت سے اپنے خوابوں کی تعبیر پالے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پولیو کی ویکسین کے لیے مولوی سے کیوں فتوی لیا جارہا ہے تو اس کی وجہ واضح ہے۔ نیاز فتح پوری کا کہنا تھا کہ مولویوں کی اتنی ہی قسمیں ہوتی ہیں جتنی سانپوں کی ہوتی ہیں، مگر بعض سانپ زہریلے نہیں ہوتے۔ نیاز فتح پوری کے اس مشاہدے میں ایک اضافے کی گنجائش ہے اور وہ یہ کہ ایک مولوی کے زہر کا توڑ دوسرا مولوی ہی کرسکتا ہے۔ ارے بھائی مصنف، پولیو کارندوں پہ حملے کرنے والے لوگ وہ نہیں ہیں جن کا پولیو ویکسین سے کوئی سائنسی اختلاف ہے۔ حملے مولوی کے بھڑکانے پہ کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ ان حملوں کو روکنے کے لیے، گویا زہر کے تریاق کے لیے، دوسرے مولوی کا استعمال ناگزیر ہے۔
بے چارے بل گیٹس کو کیا خبر تھی کہ وہ پولیو پہ حملہ کرتے کرتے وہاں پہنچ جائے گا جہاں اس کا مقابلہ ایک نہیں دو بیماریوں سے ہوگا۔ اور یہ دوسری بیماری پولیو سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بیماری ذہنی ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جو زندگی کو اعتقادات کی دلدل میں دھنسا دیکھنا چاہتی ہے۔
بل گیٹس کو یقینا کچھ لوگ سمجھا رہے ہوں گے کہ حضور، ان احمقوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیجیے اور ڈارون کی روح کو ان سے خود ہی نمٹنے دیجیے۔ جو لوگ بے وقوف ہیں ان کی نسل معذوریوں سے اور بیماریوں سے رفتہ رفتہ خود ہی ختم ہوجائے گی۔ آپ کیوں اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتے ہیں؟
پھر دوسری طرح کے مشیر بل کی ہمت بڑھا رہے ہوں گے کہ نہیں حضور، اپنی کوششیں جاری رکھیے۔ یہ لوگ مکمل طور پہ بے وقوف نہیں ہیں۔ ان میں اتنی عقل ہے کہ یہ آپ کا بنایا ہوا آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتے ہوئے، آپ کے بنائے ہوئے ورڈ سافٹ وئیر پہ لکھ کر آپ کے اچھے کاموں پہ قرآن اور سنت کی روشنی میں تنقید کرتے ہیں۔ اگر یہ بالکل ہی جاہل ہوتے (یا اگر ان میں ذرہ برابر بھی شرم ہوتی) تو کمپیوٹر اور دوسری مغربی ایجادات کی سہولیات چھوڑ کر اونٹوں پہ جا چڑھتے اور تلواریں لہرتے ہوئے ہمارے مقابلے پہ آتے۔
اور بیچارا بل یہ سب کچھ سن کر سوچتا ہوگا کہ کاش میں اپنی دولت سے لوگوں کے لیے عقل خرید سکتا۔

Labels: , , , ,


Comments:

اوپر دی گئی تصویر صیہونی اور اسلام دشمن عناصر کو بے نقاب کرنے کی ایک ادنی سی کوشش ہے۔ خود دیکھیے کہ جب پاکدامن مسلمان عشا کے وقت دفاتر سے گھر لوٹ جاتے ہیں تو اسلام دشمن ملعون کس طرح راتوں رات پاکستان کی دفتری عمارات کو پان کی پیکوں سے رنگ کر مسلمانوں کا نام بدنام کرتے ہیں۔

 
سرزمین اسلام میں پولیو قلعہ بند ہوگیا ہے۔
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?