Tuesday, March 17, 2015

 

دختر ہند





مارچ پندرہ،  دو ہزار پندرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو بتیس


دختر ہند

 
مجھے پیدل چلنا اچھا لگتا ہے۔ میں گھنٹوں، میلوں پیدل چل سکتا ہوں۔ میں اکثر گھر سے نکل کر کسی بھی سمت پیدل چلنا شروع ہوجاتا ہوں۔ پیدل چلنے سے آپ کو بہت سی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو گاڑی کے سفر میں گاڑی کی رفتار کی وجہ سے واضح طور پہ نظر نہیں آتیں۔
امریکہ میں بڑے شہروں سے باہر اگر آپ پیدل چلیں تو آپ کو اپنے جیسے پیادہ کم ہی نظر آتے ہیں۔ پیدل چلتے ہوئے میں غور کرتا ہوں کہ میرے علاوہ اور کون راہ گیر ہیں۔ اس مشاہدے سے میں نے کئی نتائج اخذ کیے ہیں۔ ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ فٹ پاتھ پہ چلنے والوں میں اکثریت مردوں کی ہوتی ہے۔ عورتیں خال خال نظر آتی ہیں۔ اندھیرا ہوتا ہے تو پیدل چلنے والی عورتوں کی تعداد اور بھی کم ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ بات شمالی کیلی فورنیا کی ہورہی ہے۔ کوئی استدلال کرسکتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پیدل چلنا اچھا نہیں لگتا مگر میرے خیال میں بات اس سے بھی زیادہ عام فہم ہے۔ اور بات ہے ہماری اجتماعی ناکامی کی۔ ہم ایک ایسا محفوظ معاشرہ  نہیں قائم کرسکے ہیں جہاں عورت بلا خوف و خطر روڈ پہ چل سکے۔ اب اسی مشاہدے کو مغربی معاشرے سے نکال کر جنوبی ایشیا میں استعمال کیجیے جہاں عورت کو اور بھی زیادہ جبر میں رکھا گیا ہے اور معاشرے کے رائج رجحانات بھی زن مخالف ہیں۔
میں نے اب تک بی بی سی کی فلم ۔دختر ہند۔ (انڈیاز ڈاٹر) نہیں دیکھی ہے، مگر اخباری اطلاعات سے جو کچھ اس فلم کے بارے میں معلوم ہوا ہے اس پہ مجھے تعجب نہیں ہوا۔ اس فلم کی خاص بات مکیش سنگھ کا انٹرویو ہے؛ واضح رہے کہ مکیش ان مجرموں میں شامل ہے جن پہ دہلی کی ایک لڑکی، جیوتی سنگھ ، کے ساتھ اجتماعی عصمت دری  کا جرم ثابت ہے۔ مکیش نے اس ڈاکیومینٹری فلم میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ جیوتی کے ساتھ جو کچھ ہوا ٹھیک ہی ہوا  کیونکہ اندھیرا ہونے کے بعد شریف لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلتیں اور جو لڑکیاں اس طرح رات کو نکلیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جاہل مکیش کی اس بات پہ ہر باشعور شخص غصے میں ہے۔ مکیش کی اس بات پہ غصہ تو مجھے بھی آیا مگر اس گھٹیا سوچ پہ مجھے تعجب نہیں ہوا کیونکہ میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے مردوں کے اس قسم کے فضول خیالات سے بخوبی واقف ہوں۔
عورت کے بارے میں فرسودہ معاشرتی رجحانات اس وقت کے خیالات ہیں جب مقابلہ جسمانی طاقت کا ہوا کرتا تھا۔ جانور کا شکار کرنا ہو یا بھاری بھرکم چیز کو ادھر سے ادھر کرنا ہو، عام زندگی کے بہت سے کام طاقت سے ہوتے تھے۔ اس معاشرے میں مرد کو عورت پہ برتری حاصل تھی۔ آج کے معاشرے میں طاقت سے کہیں زیادہ عقل کا کام ہے اور عقل میں مردوزن کی برابری مسلم ہے۔ عقل کی حکمرانی کے معاشرے میں طاقت کی حکمرانی کے پرانے معاشرے کے قوانین لاگو کرنا حماقت ہے۔
کسی بھی انسانی معاشرے کی اخلاقی حدود معاشرے میں رہنے والے سب لوگ مل کر بناتے ہیں۔ پرانی روایات اور بالخصوص وہ پرانی روایات جو عقیدے یا دین کے ساتھ جڑی ہوں انسانی معاشرے کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ ان روایات کی کوشش ہوتی ہے کہ معاشرہ اسی طرح چلتا رہے جس طرح پرانے وقتوں سے چل رہا ہے۔
جو معاشرے جدید دنیا میں عورت کی مرد کے ساتھ برابری سمجھ گئے ہیں وہاں عورت سے متعلق معاشرتی رجحانات میں رفتہ رفتہ تبدیلی آرہی ہے اور وہ معاشرے اکیلی عورت کے لیے بتدریج محفوظ اور منصف ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایسی جگہیں ہیں جہاں صدیوں پرانی روایات کا مقابلہ جدید سوچ سے ہے اور مرد عورت کو مستقل نیچا رکھنا چاہتا ہے؛ وہاں عورت غیرمحفوظ ہے اور مرد کے رحم و کرم پہ ہے۔ خوش خبری یہ ہے کہ فرسودہ خیالات والے ایسے معاشرے بہت دیر تک اپنی ناگفتہ بہ حالت میں چل نہ پائیں گے۔ ان کی جلد وقوع پذیر ہونے والی شکست دیواروں پہ جلی حروف میں لکھی ہے۔


Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?