Tuesday, January 27, 2015

 

یمن، نصیرآباد







جنوری چھبیس،  دو ہزار پندرہ
 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچیس
 
یمن، نصیرآباد


دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے مگر اس جنگ سے دہشت گردی بڑھتی ہی نظر آتی ہے۔ تازہ صورتحال یمن کی ہے جہاں ایک بالکل نیا کام ہوا ہے۔ ایک مخصوص گروہ کے لوگ جنہیں حوثی کہا جاتا ہے دارالحکومت میں اہم جگہوں پہ قابض ہوگءے ہیں۔ اس مسلح گروہ نے یمن حکومت کا تختہ تو نہیں پلٹا مگر اپنے پے درپے مطالبات سے یمن کے صدر ہادی کو اتنا زچ کیا کہ صدر نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔
جب مشرق وسطی میں تیل نہیں نکلا تھا تو پورے جزیرہ عرب نما میں یمن ایک خوشحال علاقہ مانا جاتا تھا۔ وہاں بارش ہوتی تھی، فصلیں ہوتی تھیں، اور غذا میں خودکفالت کی وجہ سے یمن میں خوشحالی تھی۔ خلیج فارس کے قریب کےعلاقوں میں تیل نکلا تو وہ بدو جو اس وقت تک حاجیوں کے قافلوں کو لوٹ کر، یا دوسرے مسلم حکمرانوں سے بھیک مانگ کر گزارا کرتے تھے راتوں رات مالدار ہوگءے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب شروع ہوچکا تھا۔ جگہ جگہ نکلنے والے تیل نے صنعتی انقلاب کو عروج دیا۔ مغرب نے ایسی چمکدار چیزیں بنانا شروع کیں جن کی طلب دنیا بھر کے لوگوں کو تھی۔ تجارت کا یہ انداز بنا کہ خلیج فارس کےعلاقے میں تیل نکلے، تیل ان ممالک کو بیچا جاءے جو نءے نءے کھلونے بنا رہے ہیں، تیل کی خرید کے لیے پیسہ مغرب سے  خلیج فارس آءے مگر زیادہ تر پیسہ مغربی بینکوں ہی میں رکھا جاءے، اور پھر اسی پیسے سے مغرب کے بناءے گءے آساءش زندگی خریدے جاءیں، جس سے پیسہ واپس مغرب پلٹ جاءے۔ ظاہر کہ یمن میں وہاں کے رہنے والوں کے لیے کھانے کا تو انتظام تھا مگر یمن کے پاس عالمی منڈی میں بیچنے کے لیے کوءی ایسی چیز نہ تھی جس سے یمن خوب زرمبادلہ کما سکے اور اس زرمبادلہ کی مدد  سے مغرب سے نءے نءے کھلونے خرید سکے۔ یمن جزیرہ نما عرب کے دوسرے ملکوں سے پیچھے رہتا گیا اور آج یمن کا شمار اس علاقے کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔  اور غربت اپنے طور پہ بہت بڑی خرابی ہے۔ ملک امیر ہو تو کسی نہ کسی طرح ریاست کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے۔ غریب ملک کے پاس ایسی سہولت نہیں ہوتی اور اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ اگر پورے ملک میں ہموار معاشی ترقی نہ ہوءی ہو اور ہر علاقے کے لوگ ریاست کے انتظامی معاملات میں اپنا حصہ محسوس نہ کریں تو ملک ذرا سی دیر میں ٹوٹ کر بکھر جاءے گا۔ حوثی مسلح حملہ آوروں کی یمن کے دارالحکومت صنعاء میں یلغار کے بعد یہی صورتحال یمن کی ہے۔ اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ یمن علاقاءی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پہ ٹوٹ جاءے گا۔ یمن شاید دوسرا صومالیہ نے بنے مگر اس وقت یمن کا مستقبل عراق کے حال جیسا نظر آتا ہے۔
اب آءیے ضلع نصیرآباد کی طرف۔ بلوچستان کا ضلع نصیرآباد اس صوبے کے مغرب میں ہے اور سندھ کے ضلع دادو کے بالکل قریب واقع ہے۔ سنیچر کے روز نصیرآباد میں نامعلوم دہشت گردوں نے بم دھماکے سے بجلی کی رصد کے دو ٹاوروں کو تباہ کردیا۔ بظاہر پاکستان کا بجلی کا نظام اتنا جدید نہیں ہے کہ نظام کے ایک حصے کی تباہی کا اثر دوسرے حصے پہ نہ آنے دے۔ نصیرآباد میں تباہی کا اثر ذرا سی دیر میں قومی بجلی گرڈ پہ آیا اور پورے پاکستان کا قریبا اسی فی صد حصہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
یمن اور نصیرآباد کے واقعات کو جوڑیے تو آپ کو یمن کی صورتحال میں پرانی دنیا کے حکمرانوں کے لیے ایک بڑا سبق نظر آءے گا۔  اور وہ سبق یہ ہے کہ پرانی دنیا میں چھوٹے چھوٹے خطے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں اور لوگ بھی مختلف فرقوں اور زبانوں میں بٹے ہوءے ہیں۔ غرض کہ کسی بھی ملک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑنے کے لیے دراڑیں پہلے سے موجود ہیں۔ چنانچہ ان خطوں کو یورپ سے درآمد شدہ خیالات کے حساب سے جوڑنا اور وہاں ایک مضبوط وفاقی حکومت قاءم کرنے کی کوشش کرنا بہت زیادہ عقلمندی نہیں ہے۔ جو خطے آپ کے ساتھ ایک ملک کی صورت میں آجاءیں انہیں ہی غنیمت جانیے۔ وہاں زیادہ سے زیادہ علاقاءی خودمختاری دیجیے تاکہ وفاقی حکومت کی نااہلی کسی علاقے کے لوگوں کی ریاست سے بددلی کا بہانہ نہ بن جاءے۔ اور نصیرآباد میں دہشت گردی کی واردات سے یہ سبق سیکھیے کہ ہر علاقہ اپنی تواناءی، اپنی غذا، اپنے پانی کے انتظامات خود سنبھالے۔ تواناءی، غذا، اور پانی کے معاملات میں جس قدر علاقاءی خومختاری ہوگی اسی قدر لوگ اپنے ان انتظامات کی حفاظت خود کریں گے۔


Yemen, Arabian Peninsula, Oil, New Economy, Industrial revolution, Consumer goods, Naseerabad, Balochistan, Pakistan power outage, Regional autonomy, Food, water, and energy self-sustenance, Intentional Community, Elmustee, ElmBustee,

Labels: , , , , , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?