Friday, December 05, 2014

 

فرگوسن، کوڑے پہ تعلیمی ویڈیو





نومبر تیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو سترہ

یہ حقیقت ہے کہ پولیس افسر ڈیرن ولسن کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے ماءیکل براءون نے ایک اسٹور سے سیگارییو [پتلے سگار] اچکے تھے اور جب دکان کے دیسی مالک نے ماءیکل براءون کو روکنے کی کوشش کی تھی تو ماءیکل نے اسے دھکا دے کر ایک طرف کیا تھا اور چراءے ہوءے سیگارییو لے کر چلتا بنا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس وقت ماءکل براءون کا قتل ہوا اس وقت ماءیکل نے گانجا [میریوانا] پی ہوءی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس وقت پولیس افسر ڈیرن ولسن کی تکرار ماءیکل براءون سے ہوءی اس وقت ماءیکل اور اس کا دوست سڑک کے بیچوں بیچ چل رہے تھے۔ ڈیرن ولسن نے ماءیکل براءون کو پے درپے بہت سی گولیاں کیوں ماریں، اس بارے میں دو راءے ہیں۔ جو لوگ مقتول ماءیکل کے ساتھ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈیرن ولسن سیاہ فام لوگوں سے نفرت کرتا ہے اور اسی لیے ماءیکل براءون سے تکرار ہونے پہ ڈیرن نے غصے میں آکر کالوں سے اپنی نفرت نکالی اور ماءیکل کو اتنی گولیاں ماریں کہ وہ مر گیا۔ جو لوگ ڈیرن کے ساتھ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ماءیکل براءون نے گانجے کے نشے میں دکان سے چوری کی اور اسی نشے میں وہ ڈیرن ولسن سے بھڑ گیا؛ ماءیکل دراصل پولیس افسر کی پستول اپنے قبضے میں کرنا چاہتا تھا اور ڈیرن نے محض اپنے دفاع میں ماءیکل کو گولیاں ماریں۔ کاش کہ اس روڈ پہ جہاں یہ واقعہ ہوا تھا کیمرے لگے ہوتے اور ہم باآسانی دیکھ لیتے کہ آیا واقعی ڈیرن نے اپنے دفاع میں براءون کو ہلاک کیا یا براءون ہر طرح سے پولیس افسر کے ساتھ تعاون کررہا تھا مگر اس تعاون کےباوجود ڈیرن نے محض اپنی نفرت میں ماءیکل کو ہلاک کیا۔ اصل قصہ کچھ بھی ہو، فرگوسن میں ہونے والے اس قتل کے بعد امریکہ میں لوگ نسل کی بنیاد پہ اور بھی زیادہ تقسیم ہوگءے ہیں۔  اب سیاہ فام نوجوان سفید فام لوگوں سے اور بالخصوص سفید فام پولیس والوں سے اور بھی نفرت کرنے لگیں گے۔ کیا مستقبل میں کوءی ایسا کام کیا جاسکتا ہے کہ فرگوسن جیسا واقعہ پھر نہ پیش آءے؟ شاید ہاں۔ اگر پولیس یہ اصول اپنا لے کہ کسی مشکوک سیاہ فام شخص سے جسمانی طور پہ نمٹنے کے لیے صرف سیاہ فام پولیس افسروں کی خدمات حاصل کی جاءیں گی تو شاید دونوں نسلوں کے درمیان رفتہ رفتہ اعتماد کی فضا پھر قاءم ہوجاءے۔ ایسا کرنا یقینا آسان نہ ہوگا مگر ایسا کرنے ہی میں بہتری ہے۔
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں، اس وقت بستی کی تعلیمی ویڈیو بنانے کے سلسلے میں کام جاری ہے۔ ایسے تعلیمی ویڈیو بنانے ہیں  جن کی مدد سے ہلکے پھلکے انداز میں لوگوں کو جدید دنیا کی باریکیاں سمجھاءی جاءیں۔ ان ہی باریکیوں میں ایک جدید دنیا میں کوڑے سے نمٹنے کا معاملہ ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے لوگ ایسی آبادیوں میں رہتے تھے جو بہت گنجان نہ ہوتی تھیں۔ اور عام استعمال کی زیادہ تر اشیا ایسی ہوتی تھیں جو رد کیے جانے کے کچھ ہی عرصے میں سڑ گل کر مٹی میں مل جاتی تھیں۔ اس دور میں کوڑا کوءی بڑا مسءلہ نہ تھا۔ مگر صنعتی انقلاب کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگءی۔ زراعت میں مشینری استعمال کرنے سے کھیت کھلیان میں افرادی طاقت کی ضرورت کم ہوءی۔ ساتھ ہی کارخانے بڑھے اور ان کے بڑھنے کے ساتھ شہروں کی آبادی بڑھنا شروع ہوءی۔ اب بہت سے لوگ ساتھ رہنے لگے اور ان کا رد کیا جانے والا کوڑا بھی بڑھنے لگا۔ آج ترقی یافتہ دنیا میں کوڑا تلف کرنے کا جو جدید نظام نظر آتا ہے وہ ارتقا کی کءی منازل طے کر کے موجودہ جگہ پہنچا ہے۔
کوڑے کو تلف کرنے کی سب سے راءج ترکیب یہ ہے کہ شہر بھر کے کوڑے کو آبادی سے کچھ دور مٹی میں دبا دیا جاتا ہے۔ جس جگہ کوڑے کومٹی میں دفن کیا جاتا ہے اسے لینڈ فل کہتے ہیں۔ سلسلہ کچھ یوں بنتا ہے کہ کسی علاقے کے رہاءشی اپنے اپنے گھروں سے کوڑا نکال کر اسے ایک بڑے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔ شہری انتظامیہ کی طرف سے کوڑا اٹھانے کاٹھیکہ کسی کمپنی کو دیا جاتا ہے۔ یہ کمپنی ہر گھر سے ایک ماہانہ رقم وصول کرتی ہے۔ اس مشاہرے کے عوض اس کمپنی کا ٹرک خاص دنوں میں آپ کے محلے میں آتا ہے اور کوڑے کا ڈبہ خالی کر کے کوڑا اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ٹرک اس کوڑے کو آبادی سے دور ایک خاص جگہ ڈال دیتاہے۔ کوڑا ڈالنے کی اس جگہ کا انتظام شہر نے کیا ہوتا ہے۔ کوڑا کھاءی میں بھرتا جاتا ہے اور اس کوڑے کے اوپر مستقل مٹی ڈالی جاتی ہے۔ کوڑا تلف کرنے کے اس روایتی اور راءج طریقے میں یہ قباحت ہے کہ نءے دور کا انسان اس قدر تیزی سے کوڑے کے ڈھیر لگا رہا ہے کہ کوڑا تلف کرنے کے لیے  جگہیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید کوڑے میں بہت سے مضر کیمیکل ہوتے ہیں۔ جب لینڈ فل پہ بارش ہوتی ہے تو یہ کیمیکل پانی کے ساتھ مل کر زیرزمین ذخیرہ آب میں مل جاتے ہیں اور صحت عامہ کے لیے مسءلہ پیدا کرتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کی ترکیب یہ نکالی گءی ہے کہ لوگوں کو 'کم، نیا استعمال، اور بازیافتگی' کے نعرے پہ عمل کرنے کے لیے تیار کیا جاءے۔
یعنی اول تو ہم سب یہ کوشش کریں کہ وہ چیزیں کم سے کم استعمال کریں جن سے کوڑا بنتا ہے۔ دوءم، کوشش کریں کہ جس چیز کو عموما رد کردیا جاتا ہے اسے کسی طرح دوبارہ استعمال میں لے آءیں۔ پاکستان میں لوگ رد کی ہوءی اشیا کو نئے کام میں لانے میں ماہر ہیں۔ گھروں میں جام اور جیلی کی رد کی ہوءی شیشیوں میں مصالحے رکھنا عام بات ہے۔ سب سے آخری حکمت عملی یعنی بازیافتگی [ری ساءیکلنگ] کے لیے کارخانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیشہ، کاغذ، پلاسٹک، ٹین، اور دیگر دھاتیں مخصوص  کارخانوں میں بازیافت کی جاسکتی ہیں۔ 'کم، نیا استعمال، اور بازیافتگی' پہ عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جس مقام پہ کوڑا نکل رہا ہے وہیں اسے مختلف حصوں میں بانٹ دیا جاءے۔ دھات کی چیزیں الگ کرلی جاءیں؛ کاغذ اور گتا الگ ؛ پلاسٹک الگ؛ شیشہ الگ، باورچی خانے کا کوڑا الگ؛ اور بالکل رد کیا جانے والا کوڑا بالکل الگ کر لیا جاءے۔ پھر کاغذ اور گتا، پلاسٹک، شیشہ، اور دھات الگ الگ بازیافتگی کے لیے روانہ کیے جاتے ہیں۔ بازیافتگی کا وہ کام جو آپ اپنے طور پہ گھر میں کرسکتے ہیں وہ باورچی خانے کے کوڑے کو کھاد میں تبدیل کرنے کا کام ہے۔ اس عمل کو انگریزی میں کمپوسٹنگ کہتے ہیں۔ یہ کام بہت آسان ہے کیونکہ باورچی خانے کا کوڑا وقت گزرنے کے ساتھ سڑ کر کھاد بن ہی جاتا ہے۔ آپ تھوڑی سی توجہ سے سڑنے کے اس عمل میں تیزی لا سکتے ہیں۔ ترکیب یہ ہے کہ زمین میں ایک گڑھا کھودیں اور روز کا باورچی خانے کا کوڑا اس گڑھے میں ڈال کر روز اس کوڑے پہ پتلی سی مٹی کی تہہ ڈالتے جاءیں۔ اگر اس مٹی میں کیچوے ہوں تو اور بھی اچھا ہے۔ کیچوے ایک طرف سے کوڑا کھاتے ہیں اور دوسری طرف سے نکالتے ہیں اور نکلنے والا مواد کھاد کے طور پہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر زمین میسر نہ ہوتو کمپوسٹنگ کا یہ کام بڑے گملوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔

تصویر بشکریہ 
http://www.dailymail.co.uk/

 



Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?