Friday, November 28, 2014
یروشلم میں بہیمانہ قتل، غسل کی تاریخ
نومبر
باءیس، دو ہزار چودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار دو سو سولہ
یروشلم میں بہیمانہ قتل، غسل کی
تاریخ
وہ سنیچر کا روز تھا اور اسراءیل میں شبات منایا
جارہا تھا۔ کٹر یہوی شبات کے دن عبادت کے علاوہ دیگر سرگرمیاں محدود رکھتے ہیں۔ ہم تل ابیب کے بس اڈے پہنچے تو وہاں
کاروبار ٹھپ پڑا تھا۔ تل ابیب سے یروشلم جانے کے لیے کوءی بس موجود نہ تھی۔ پھر
کسی نے بتایا کہ شبات کے مقدس دن بھی ہمیں بس اڈے کے باہر سے یروشلم جانے کے لیے ایک
شروت [وین] مل جاءے گی۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ ہم بس اڈے سے نکلے تو سامنے ہی
یروشلم جانے والی شروت ایک قطار سے کھڑی تھِیں۔ ہم ایک شروت میں سوار ہوءے جو
مسافر پورے ہونے پہ چلنا شروع ہوگءی۔ وین تل ابیب سے باہر نکلی، اس نے ایک ویرانہ
پار کیا جس میں فاصلے سے کھیت کھلیان نظر آءے، اور پھر کچھ ہی دیر میں دوسری شہری
آبادی میں داخل ہوگءی۔ معلوم ہوا کہ ہم یروشلم پہنچ چکے ہیں۔ وین مغربی یروشلم کی
ایک گلی میں جاکر کھڑی ہوگءی۔ ہمیں پرانے شہر جانا تھا۔ ہم اس طرف پیدل چلنا شروع
ہوگءے۔
تین روز پہلے مغربی یروشلم کے ایک یہودی معبد
میں قتل کا ایک واقعہ ہوا جس میں تین عبادت گزار، ایک پولیس والا، اور دو فلسطینی حملہ
آور مارے گءے تو مغربی یروشلم کا وہ علاقہ میری نظروں کے سامنے آگیا جس کے بارے
میں اوپر لکھا گیا ہے۔
یہ دنیا عجیب رخ پہ چل نکلی ہے۔ قتل و غارت گری
کا کوءی واقعہ ہو تو لوگ ذرا سی دیر میں گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ انسان کو انسانیت
سے گرا کر اسے ذرا سی دیر میں شناخت کے خانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر مقتول شناخت
کے ایک خانے سے تعلق رکھتا ہے تو مظلوم ہے، اگر دوسرے خانے سے تعلق رکھتا ہے تو
پھر یقینا مارے جانے کا حقدار تھا۔
آج دو ٹوک الفاظ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بے
گناہ لوگوں پہ چھپ کر وار کرنا اور انہیں ہلاک کرنا سراسر غلط ہے۔ مغربی یروشلم
میں ہونے والی قتل کی اس کارواءی کی جتنی مذمت کی جاءے کم ہے۔
کیا اس مذمت کے ساتھ کسی مگر کی کوءی گنجاءش ہے؟
ہاں ہے۔ کیونکہ قتل کے اس افسوسناک واقعے کو اس کے پورے تناظر میں دیکھنا ضروری
ہے۔ اور پس منظر یہ ہے کہ ایک جگہ کے رہنے والوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا
گیا ہے۔ ان کو ایک کونے میں لگا دیا گیا ہے اور ہر روز ان کو ذلیل کیا جاتا ہے۔
بہت سے لوگ اس طرح کی رسواءی پہ تنگ آمد بجنگ آمد کی منزل پہ جا پہنچتے ہیں۔
میں جس جگہ رہتا ہوں اس سے کچھ فاصلے پہ تھوڑا
عرصہ پہلے شہری آبادی میں شیر نظر آءے تو بہت شور ہوا۔ اس علاقے کے مکین ڈرے کہ کہیں شیر ان پہ حملہ
نہ کردیں اور ساتھ ہی اس طرح کی اپیل کی گءی کہ شیروں کو آبادی سے دور رکھنے کی
کوءی ترکیب کی جاءے۔ ان ساری شیر مخالف آوازوں کے ساتھ ایک مختلف راءے بھی سننے
میں آءی۔ کسی نے کہا کہ یہ بھی تو دیکھو کہ شیر تم پہ حملہ کیوں کریں گے؟ شیر
تمھاری تلاش میں یہاں نہیں آءے ہیں۔ یہ علاقہ جنگل تھا اور یہاں شیر آزادی سے پورے
میں پھرتے تھے۔ پھر انسان نے اس علاقے پہ قبضہ کر لیا اور یہاں گھر بنا لیے۔ اب
شیر کو بے دخل کر کے اس کےعلاقے میں گھر بناءو گے تو شیر تو ناراض ہوگا۔
آج کل علمستی کے تعلیمی ویڈیو کے سلسلے میں کام
ہورہا ہے۔ خیال یہ ہے کہ کسی معمولی پڑھے لکھے شخص کو ہفتے بھر کے اندر کیسی تعلیم
دی جاءے کہ وہ جدید دنیا کے خیالات اور آلات سے آگاہ ہوجاءے۔ ایک ویڈیو صفاءی کے
موضوع پہ بنانی ہے۔ کہ کسی شخص کے لیے اپنے طور پہ جسمانی صفاءی کا کیا مطلب ہوتا
ہے اور ہونا چاہیے؟
پہلے تو جانوروں کو دیکھیے۔ اکثر جانور اپنے طور
پہ جسمانی صفاءی کا انتظام کرتے نظر آءیں گے۔ ہاتھی جھیل اور تالاب پہ پہنچتے ہیں
تو سونڈ میں پانی بھر کر اپنا جسم دھوتے ہیں۔ دوسرے جانور گرد میں لوٹ کر اپنے آپ
کو صاف کرتے ہیں۔ غرض کہ مراحل ارتقا سے گزرتے، جانوروں کو یہ بات سمجھ میں آءی ہے
کہ زندگی کو دیر تک قاءم رکھنے کے لیے جسمانی صفاءی ضروری ہے۔ قدیم وقت کا انسان
نہ جانے اپنی صفاءی کا انتظام کیسے کرتا تھا مگر انسان کی لکھی تاریخ میں غسل کرنا
کوءی نءی بات نہیں ہے۔ ایک عرصے سے یہ خیال راءج ہے کہ اپنے اوپر پانی انڈیل کر
جسم کو دھونا اچھا کام ہے۔ یہ عمل کتنی باقاعدگی سے ہو اس کا تعلق علاقے اور
دستیابی آب سے رہا ہے۔ اب سے صرف پچاس ساٹھ سال پہلے تک ٹھنڈے علاقوں کے لوگ
سردیوں کے دنوں میں ہفتے دس دن ہی میں نہایا کرتے تھے۔ مگر اب یہ حال ہے کہ دنیا
کی اکثر جگہوں پہ جہاں پانی کی قلت نہیں ہے اور پانی کو آسانی سے گرم کرنے کا
انتظام بھی موجود ہے، لوگ روز نہاتے ہیں۔ اس غسل میں لوگ سر کو اچھی طرح دھوتے ہیں
اور پورے جسم پہ بھی صابن لگا کر اسے صاف کرتے ہیں۔ اکثر لوگ دانت مانجھنے اور
نہانے کے بعد کان کے اندر کی صفاءی کو بھی غسل میں شامل کرتے ہیں۔ اور لوگ ایسا اس
لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اچھی صحت قاءم رکھنے کے لیے جسمانی صفاءی
ضروری ہے اور غسل جسمانی صفاءی کا سب سے
موثر طریقہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو
اپنی صحت کی کوءی پرواہ نہ ہو تو کیا کسی اور وجہ سے بھی آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ
روز غسل کریں۔ اور جواب ایک زوردار 'ہاں' میں ہے۔ ہم میں سے ہر شخص دوسروں کے
ماحول کا ایک جز ہے۔ ہم سب ایک اچھے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں۔ جس طرح ہم یہ نہیں
چاہتے کہ ایسی جگہ جاءیں جہاں گٹر ابل رہے ہوں اور ہر طرف بو پھیلی ہو، اسی طرح ہم
چاہتے ہیں کہ ہم جن لوگوں سے ملیں ان کے پاس سے بو نہ آرہی ہو۔ ہم ایسے لوگوں کو
اپنے ماحول کا حصہ دیکھنا چاہتے ہیں جو جسمانی طور پہ صاف ہونے کے ساتھ اچھے اور
ستھرے کپڑے پہنے ہوں اور جن کے پاس سے خوشبو آرہی ہو۔
Labels: Arab Israeli conflict, Bloodshed in Jerusalem synagogue, History of bathing