Friday, November 21, 2014

 

آدم اور ارتقا



نومبر سولہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پندرہ


آدم اور ارتقا


پاپاءے روم نے حال میں فرمایا کہ نظریہ ارتقا اور عیساءی کیتھولک نظریات کے درمیان کوءی تضاد نہیں ہے۔ میں یہ خبر لے کر مرزا ودود بیگ کے پاس پہنچا تو بیگ صاحب آپے سے باہر ہوگءے۔ کہنے لگے، "میاں، فرانسسکو صاحب سے کہو کہ بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی۔ اب پاپاءے روم کو یہ بتانا ہوگا کہ ارتقا کے طویل عمل میں آدم اور حوا کہاں فٹ ہوتے ہیں؟" میں نے ڈرتے ڈرتے بیگ صاحب سے وضاحت طلب کی تو کہنے لگے کہ ساءنس داں ایک عرصے سے سنگواروں [فوسل] کے ثبوت کے ساتھ ارتقا کا مقدمہ مضبوط کررہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مذہب کے ٹھیکیدار ارتقا کے مقدمے میں اپنا مفصل جواب جمع کراءیں۔ مذہبی کتابوں میں انسان کی جو تاریخ بتاءی گءی ہے وہ بہت آگے تک نہیں جاتی۔ حضرت عیسی کا عہد محض دو ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ حضرت آدم اور حضرت عیسی کے درمیان وقت کو بہت زیادہ بھی پھیلاءیں تو یہ ساری کہانی بمشکل دس ہزار سال کی بنتی ہے۔ ساءنس انسان کی اس دنیا میں جو تاریخ بتارہی ہے وہ  مذہب کی بتاءی کہانی سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ لوسی کا پنجر ہی لے لو۔ یہ پنجر تین کروڑ سال پرانا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ جو بتایاجا رہا ہے اس کو چپ چاپ مانو جب کہ ساءنس کھلے ذہن کے ساتھ آگےبڑھ رہی ہے۔ ساءنس کی راہ پہ چلنے والوں کی اسی وسیع الخیالی کے سبب سنگواروں کی مدد سے انسانی تاریخ کی جو کہانی بنی ہے وہ بتاتی ہے کہ آج انسان جس شکل میں ہے، اس سے ملتی جلتی شکلوں کے انسان پچھلے پانچ کروڑ سالوں سے اس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اس کہانی کے حساب سے موجودہ شکل میں انسان افریقہ میں بنا اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اس کہانی کے حساب سے انسان نے محض چھ لاکھ سال پہلے آگ پہ قابو پایا۔ اس کہانی کے حساب سے پتھر کا زمانہ لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے ختم ہوا۔ پتھر کا زمانہ وہ وقت تھا جب انسان پتھر کو اوزار کے طور پہ استعمال کرتا تھا۔ اس کہانی کے حساب سے کتے کو قریبا سولہ ہزار سال پہلے سدھایا گیا؛ اس وقت تک انسان نے زراعت ایجاد نہ کی تھی۔ اس کہانی کے حساب سے انسان شکار کی تلاش میں ایشیا سے امریکہ قریبا چالیس ہزار سال پہلے پہنچا۔ یہ نقل مکانی اس وقت ہوءی جب برفانی دور کی وجہ سے موجودہ آبناءے بیرنگ کے علاقے کو پیدل پار کیا جاسکتا تھا۔ قریبا باءیس ہزار سال پہلے جب وہ برفانی دور ختم ہوا، سمندروں کی سطح بلند ہوءی تو آبناءے بیرنگ پانی سے بھر کر اپنی موجودہ شکل میں آگءی۔ امریکین کے انسان کا پرانی دنیا کے انسان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ پھر یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ انسان کے یہ دو گروہ الگ الگ ارتقا کی ایک جیسی منزلیں طے کرتے رہے۔ ان دونوں گروہوں نے الگ الگ زراعت ایجاد کی، دھات پگھلانا سیکھا، اور جانور سدھاءے۔ اس کہانی کے حساب سے تمدن کا براہ راست تعلق زراعت سے ہے۔ اور زراعت محض پانچ سے آٹھ ہزار سال پرانی ایجاد ہے۔ زراعت ایجاد کرنے کے بعد انسان بستیوں کی صورت میں بسنا شروع ہوا۔ اسی وقت اس نے اپنی غذا کے لیے جانور بھی سدھاءے: گاءے، بکری، بھیڑ، وغیرہ۔ ان تمام جانوروں کی جنگلی شکلیں آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔  پانچ ہزار سال پہلے لکھاءی ایجاد ہوءی اور اس کے بعد قوانین تشکیل پاءے۔ اور پھر محض پانچ سو سال پہلے انسانوں کے دو بچھڑے ہوءے گروہ ایک دوسرے سے مل گءے۔ مادی ترقی میں پرانی دنیا کا انسان نءی دنیا کے انسان سے آگے تھا۔ نءی دنیا میں نہ گھوڑے تھے نہ بارود؛ کاغذ نہ ہونے کی وجہ سے لکھاءی کا معاملہ یہاں آگے نہ پہنچا تھا،اور اس وجہ سے تجارت کے معاملے میں بھی یہ لوگ ترقی یافتہ نہ تھا۔ اور یوں اپنی بہتر ٹیکنالوجی کی وجہ سے پرانی دنیا کا انسان نءی دنیا کے انسان پہ حاوی ہوگیا۔
آج جو نءے مذاہب دنیا میں ہیں ان کی کہانیاں، ان کی تعلیمات کتابی شکل میں لکھاءی میں ہیں۔ مگر یہیں ایسے مذاہب بھی ہیں جن کی کہانیاں اور تعلیمات محض زبانی شکل میں ہیں۔
میں بیگ صاحب کی بات سر جھکاءے غور سے سن رہا تھا۔ انہوں نے میرا شانہ ہلا کر کہا ، " پاپاءے روم سے کہیے کہ اگر مذہبی روایات اور ساءنسی تعلیمات میں کوءی اختلاف نہیں ہے تو ذرا آدم اور حوا کو اس کہانی میں تو فٹ کیجیے۔"

تصویر بشکریہ: 
 http://www.ncregister.com


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?