Saturday, October 25, 2014
گاڑی کا حادثہ، زندگی آسان
اکتوبر انیس، دو ہزار چودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار دو سو گیارہ
گاڑی کا حادثہ، زندگی
آسان
سخت گرمیوں کےدن تھے۔سہ پہر کے اس
سمے سورج کچھ ڈھلا تھا مگر زمین اب تک تپ رہی تھی۔ میں آٹھویں جماعت میں پڑھ رہا
تھا۔ بھٹو حکومت نے نجی اداروں کو قومیانے کی مہم شروع کی تھی اور اشیاءے خوردونوش
کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے آٹا اور چینی راشن کارڈ پہ ملا کرتے تھے۔ محلے
کی وہ دکان جہاں سے آٹا اور چینی راشن پہ ملتے تھے ہمارے گھر سے دور نہ تھی۔ اس
روز میں گھر سے راشن کارڈ اور رقم لے کر راشن کی دکان پہ جارہا تھا۔ راستے میں ایک
گھر پڑتا تھا جو ایک عرصے سے زیر تعمیر تھا۔ دیواریں کھڑی ہوگءی تھیں مگر ان پہ
پلستر نہ ہوا تھا۔ میں بہت دنوں سے وہاں سے گزرتا ان دیواروں کو دیکھتا تھا اور
اتنا عرصہ انہیں دیکھنے کی وجہ سے میری ان نامکمل دیواروں سے شناساءی ہوگءی تھی۔
مگر اس دوپہر منظر کچھ اور تھا۔ زیر تعمیر مکان کی دیوار کے ساتھ بانس کے بلیوں
اور دیودار کے پھٹوں، تختوں کی مچان بن چکی تھی اور مزدو دیوار پہ پلستر کے کام
میں زوروشور سے مشغول تھے۔
میں ایک لمحے کے لیے وہیں رک گیا۔
کسی چیز کو کھودینے کا احساس میرے وجود میں سراءیت کرگیا۔ جن دیواروں سے میری
شناساءی ہوچکی تھی، وہ اب پلستر کے نیچے پوشیدہ ہونے والی تھیں۔ میں اب شاید کبھی
ان دیواروں کو اس طرح نہ دیکھ پاءوں گا۔
دو روز پہلے کھودینے کا ایسا ہی ایک
احساس اس وقت ہوا جب میری حادثہ شدہ گاڑی ایک کھینچ ٹرک [ٹو ٹرک] میں لدی، ٹرک
روانہ ہوا، اور وہ گاڑی جس نے تیرہ سال میرا ساتھ دیا تھا میری نظروں سے اوجھل
ہوگءی۔ اسی وقت مجھے خیال ہوا کہ میرے اندر کسی قنوطی روح کا ایک ٹکڑاہے جو ہر طرح
کی تبدیلی پہ مجھے دل گرفتہ کرنا چاہتا ہے۔
بات ہاءی وے آٹھ سو اسی سے شروع
ہوءی۔ گاڑی کے حادثے کے بعد ہاءی وے قریبا بند ہوگءی تھی اس لیے پولیس والے نے فون
کر کے کھینچ ٹرک کو بلایا؛ وہ لوگ ٹریفک سے بھڑتے کچھ ہی دیر میں وہاں پہنچ گءے
اور گاڑی کو کھینچ کر شہر ہیورڈ میں واقع اپنے یارڈ میں لے گءے۔ اب انشورینس والوں
سے ہماری بات چیت شروع ہوءی۔ انشورینس کمپنی کا ایک آدمی گیا اور گاڑی کو وہاں
دیکھ آیا جہاں وہ کھڑی تھی۔ اس نے فون کر کے ہمیں بتایا کہ گو کہ وہ ایڈجسٹر نہ
تھا مگر گاڑی کی حالت دیکھ کر وہ بتا سکتا تھا کہ گاڑی اب مرمت کے لاءق نہیں رہی
ہے۔ باالفاظ دیگر گاڑی کی مرمت پہ جو خرچہ آءے گا وہ اس رقم سے زیادہ ہے جو اس
پرانی گاڑی کی چالو حالت میں قیمت ہے۔ ہمیں یہ مژدہ جان فزا سنانے کے بعد انشورینس
والے گاڑی کو اٹھا کر اپنے یارڈ میں لے گءے؛ گاڑی اب مزید شمال میں شہر مارٹینیز
پہنچ چکی تھی۔ اس یارڈ میں انشورینس کمپنی کے ایک باقاعدہ ایڈجسٹر نے گاڑی کا
معاءنہ کر کے تصدیق کی کہ گاڑی اب کوڑا ہوچکی ہے۔ اس درمیان میں ہم نے ادھر ادھر
معلومات حاصل کیں۔ ہمارے ایک دوست گاڑیوں کے معاملات میں بہت شاطر ہیں؛ ان کا کہنا
تھا کہ ہم انشورینس والوں کی باتوں میں نہ آءیں۔ گاڑی واپس حاصل کریں اور اس کی
مرمت خود کروالیں۔ مرمت کون کرے گا؟ اس سلسلے میں ڈھونڈ ہوءی تو منجیت سنگھ کا پتہ
معلوم ہوا۔ منجیت سنگھ ایک ماہر کاریگر ہیں۔ ان کے آگے کے تین دانت داءیں جانب سے
غاءب ہیں۔ اپنے جزوی پوپلے منہ کے ساتھ جب وہ انگریزی بولتے ہیں تو ان کی انگریزی
پنجابی ہی کی کوءی شکل معلوم دیتی ہے۔ گاڑی انشورینس والوں کے قبضے سے حاصل کرنے
سے پہلے منجیت سنگھ کی راءے لی گءی۔ انہوں نے زبانی، گاڑی کے نقصان کا حال سنا اور
پھر خیال ظاہر کیا کہ گاڑی ہزار، بارہ سو میں ٹھیک ہوجانی چاہیے۔ ہم نے جھٹ
انشورینس والوں کو فون کیا، ان کو منجیت سنگھ کی دکان کا پتہ بتا کر ہدایت کی کہ
فوری طور پہ گاڑی دکان پہ پہنچاءی جاءے۔ جلدی کا کام شیطان کا؛ جلدی میں انشورینس
والوں نے غلط گاڑی روانہ کردی۔ غلط گاڑی جو نہ جانے کس بھلے مانس کی ٹویوٹا کیمری
تھی چار دن تک منجیت سنگھ کے پاس کھڑی رہی اور اس درمیان ہم انشورینس والوں سے شور
و وایلہ کرتے رہے۔ بالاخر غلط گاڑی واپس گءی اور ہماری گاڑی منجیت سنگھ کے پاس
پہنچی۔ گاڑی ہاتھ آنے پہ منجیت سنگھ نے تھوڑا سے پیچھےہٹ کر گردن ٹیڑھی کر کے، اور
بھنویں سکیڑ کر گاڑی کو یوں دیکھا جیسے بکرا پیڑی میں قربانی کے بکرے کو تیکھی نظروں
سے دیکھا جاتا ہے۔ خیربکرے کے ساتھ تو اور بھی کءی نازیبا حرکتیں کی جاتی ہیں۔ گاڑی کا کچھ دور سے جاءزہ لینے کے بعد منجیت
سنگھ نے آگے بڑھ کر ہڈ اٹھا کر انجن کو غور سے دیکھا اور پھر دونوں طرف سے پیماءش
لینا شروع کی۔ اس تشخیصی عمل کے دوران منجیت سنگھ مکمل طور سے خاموش رہے۔ ان کی
خاموشی ہم اسی خوف سے برداشت کر رہے تھے جس خوف سے ہم ڈاکٹروں کی خاموشی سہتے ہیں۔
اگر کبھی بیمار پڑنے پہ ڈاکٹر کے پاس جاءیں تو ڈاکٹر صاحب بھی دیر تک اسی طرح کا
معاءنہ کرتے رہتے ہیں۔ پہلے تھرمومیٹر منہ میں ڈالا جاتا ہے، پھر فشار خون جانچا
جاتا ہے، پھر نبض دیکھی جاتی ہے؛ کبھی کہا جاتا ہے کہ منہ کھول کر آ کریں۔ ہم
پرانے خیالات کے ہیں اور آ کے بجاءے 'آءیے' کہنا چاہتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کے
سامنے چوں نہیں کرتے۔ پھر ڈاکٹر صاحب پیٹھ پہ برف جیسا ٹھنڈآ اسٹیتھواسکوپ جگہ جگہ
لگا کر ہم سے کھانسنے کو کہتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے اشاروں پہ ناچتے ہیں اور دل
ہی دل میں خوفزدہ رہتے ہیں کہ اس سارے عمل کے بعد کسی پرانے فلم کے سین کی طرح ڈاکٹر
صاحب اپنا چشمہ اتار کر ایک طرف رکھیں گے اور ہونٹ بھینچتے ہوءے ہم سے کہیں گے کہ،
"آپ نے آنے میں دیر کردی۔ سرطان پورے جسم میں پھیل چکا ہے۔ آپ کے پاس مشکل سے
ایک ہفتہ ہے۔ اس ایک ہفتے میں آپ جلدی جلدی اپنی تمام پرانی دشمنیاں چکا لیں تاکہ
مرتے وقت آپ کو کسی قسم کا افسوس نہ ہو۔"
قصہ مختصر یہ کہ منجیت
سنگھ نے مکمل خاموشی سے گاڑی کا اچھی طرح معاءنہ کرنے کے بعد ہمیں بتایا کہ ڈراءیور والی سمت سے گاڑی کا فرمہ
اندر چلا گیا ہے، گاڑی اب مرمت کے قابل نہیں رہی ہے۔ اور اگر زبردستی مرمت کی کوشش
کی گءی تو بہت زیادہ خرچہ آءے گا؛ مرمت پہ رقم ضاءع کرنے کے بجاءے ہمیں دوسری گاڑی
لے لینی چاہیے۔ منجیت سنگھ کی اس تشخیص کے بعد ہمارے اور منجیت کے درمیان چند پنجابی کلمات کا
تبادلہ ہوا جو قابل تحریر نہیں ہیں۔
گاڑی کو کباڑیے کو دینے کی تیاری شروع
ہوءی۔ کباڑیے کی ایک دکان کو فون کیا۔ خاتون نے گاڑی کا حال احوال معلوم کر کے
قیمت تین سو تینتیس ڈالر لگاءی۔ ہم نے اچھنبا ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے
مینیجر سے پوچھ کر بتاءیں گی۔ کچھ ہی دیر میں وہ واپس فون پہ آءیں اور کہا کہ ہمیں
اس گاڑی کے زیادہ سے زیادہ چار سو بیاسی ڈالر مل سکتے تھے؛ اس قیمت میں گاڑی بیچنا
ہے تو چوبیس گھنٹے میں فیصلہ کر کے فون کرو۔ ہم بھی ہمت ہارنے والے نہ تھے۔ گاڑی
کا اشتہار کریگز لسٹ پہ لگا دیا۔ قیمت ایک
ہزار چارسو رکھی۔ کچھ لوگوں نے گاڑی
دیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ پہلے حضرت جو گاڑی دیکھنے آءے فلپاءن سے تعلق رکھتے
تھے۔ انہوں نے گاڑی کو دیکھتے ہی یوں افسوس میں سرہلایا جیسے کہ ان کو واقعی دلی
صدمہ پہنچا ہو۔ انہوں نے گاڑی کا طواف کیا اور پھر ان خرابیوں کے علاوہ جو ہمیں
معلوم تھیں، دس بیس اور براءیاں گنوادیں۔ ہمارے بالکل روھانسا ہونے پہ انہوں نے
گاڑی کی قیمت پانچ سو ڈالر لگادی۔
دو دنوں میں تین گاہک آءے اور بالاخر
گاڑی ایک ہسپانوی کے ہاتھوں بیچ دی گءی۔ ایک عرصے سے ہمیں خیال ہے کہ مصیبت سے
نبردآزما ہونے میں منفعت کی راہ نکالنا ہی فعل رندانہ ہے۔ گاڑی کے حادثے سے ہم نے
بھی سہولت کی یہ راہ نکالی ہے کہ اب یہ خانوادہ دو گاڑیوں کے بجاءے ایک ہی گاڑی پہ
گزارا کرے گا۔ دوسری گاڑی کا خرچہ بھی بچا اور آٹو انشورینس کے ماہانہ اخراجات بھی
کم ہوءے۔
Labels: Auto insurance claim, Car accident, Car Insurance, Fender Bender, How to benefit from a calamity, Simplifying life