Monday, October 06, 2014

 

چند لوگوں ک فیصلے، عوام پہ عذاب





اگست چوبیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چار


چند لوگوں ک فیصلے، عوام پہ عذاب



اس وقت بے ایریا میں سنیچر کے روز شام کے ساڑھے پانچ بجے ہیں۔ اب سے چند گھنٹے پہلے جو کچھ اسلام آباد میں ہوا وہ اس کالم کے پڑھنے والوں نے کمپیوٹر اور ٹی وی پہ دیکھا ہی ہوگا۔
دو ہی باتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کہیں کہ آپ آءین اور قوانین کو مانتے ہیں اور قانون کے حساب سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کہیں کہ آپ 'جس کی لاٹھی، اس کی بھینس' والے مقولے پہ یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ موقع ملنے پہ دھونس دھڑپے سے کام نکالنا بالکل ٹھیک ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کوءی بھی معاشرہ اس وقت تک مہذب کہلانے کے لاءق نہیں ہے جب تک وہاں کے تمام ادارے اور تمام لوگ آءین اور قوانین کے تابع نہ ہوں، یہ بات مانتے ہیں کہ معاشرے میں حکومت کی تبدیلی آءین اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔  بہت سے لوگوں کی طرح میرے اوپر بھی نواز شریف حکومت کی نااہلی بالکل عیاں ہے۔ مگر پاکستان کی موجودہ حکومت سے تمام تر مایوسی کے باوجود میرے لیے ایک غیرآءینی فعل کی حمایت کرنا جس میں آٹھ دس ہزار لوگ ڈنڈے کے زور پہ حکومت گرانا چاہیں، ممکن نہیں ہے۔ اس موقع پہ کوءی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ اگر ایک حکومت مکمل طور پہ انتِخابی دھاندلی سے وجود میں آءی ہو تو پھر نظام کے اندر رہتے ہوءے اس حکومت کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ بات بہت مناسب ہے مگر یہاں ذہن میں ایک لفظ آتا ہے، اور وہ ہے 'انقلاب'۔ جب کبھی ایسا ہو کہ ملک کی اکثریت ریاست کے موجودہ نظام سے متنفر ہوجاءے اور ہرجگہ لوگ سڑکوں پہ نکل آءیں تو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا احتجاج راءج نظام کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ سمجھا جاتا ہے اور ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ راءج نظام کو رخصت کر کے ایک نیا نظام لایا جاءے۔ کیا آپ جو کچھ اسلام آباد میں دیکھ رہے ہیں اسے 'انقلاب' کہا جاسکتا ہے؟ کیا پاکستان کی اکثریت موجودہ نظام کے خلاف سڑکوں پہ نکل آءی ہے؟ ان سوالات کے جوابات آپ تلاش کریں۔
جو لوگ آپ پر حکومت کرتے ہیں وہ ایسے فیصلے کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں جن سے آپ کو براہ راست نقصان پہنچے۔ وہ ملک کی معیشت کو تباہ کرسکتے ہیں۔ حکومت کے غلط فیصلے عام لوگوں کو کیسے متاثر کرتے ہیں اس کا تجربہ ارجینٹینا کے حالیہ سفر میں ہوا۔
ارجینٹینا جانے والے سارے سیاحوں کو یہ بات جلد یا بدیر معلوم ہوجاتی ہے کہ ارجینٹینا ان سیاحوں کے لیے چالیس فی صد رعایت کے ساتھ دستیاب ہے جن کی جیب میں نقد امریکی ڈالر ہوں۔ اس رعایت کی تفصیل یہ ہے کہ ارجینٹینا کے بازاروں میں امریکی ڈالر کالے نرخ [بلیک ریٹ] پہ بکتا ہے۔ غلط سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے ارجینٹینا میں افزوں افراط زر ہے۔ اس افراط زر سے بچنے کے لیے ارجینٹینا کے متمول افراد اپنی جمع پونجی امریکی ڈالر میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ارجینٹینا میں امریکی ڈالر کے سرکاری نرخ [آفیشل ریٹ] اور کالے نرخ میں فرق ہے۔ سرکاری نرخ حکومت مقرر کرتی ہے اور یہ ایک خیال خام ہے؛ کالا نرخ منڈی مقرر کرتی ہے اور یہ زمینی حقیقت ہے۔ سرکاری اور کالے نرخ میں فرق چالیس سے پچاس فی صد کے درمیان ہے۔ بیونس آءرس اور میندوزا میں سیاحوں کے علاقوں میں لوگ 'کامبیو، کامبیو' کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ نقد ڈالروں کی یہ خرید وفروخت کیا غیرقانونی ہے؟ شاید نہیں کیونکہ ہم نے یہ دھندہ دن کی روشنی میں پولیس کی نظروں کے سامنے ہوتے دیکھا۔ ارجینٹینا کے کالے نرخ سے ہماری پہلی باقاعدہ واقفیت بولیویا کے قصبے یاکیوبا میں ہوءی تھی۔ سرحد پار کرنے سے پہلے ہم نے ایک ٹیکسی والے سے ارجینٹینا پے سو کا نرخ پوچھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک امریکی ڈالر کے تیرہ پے سو یا اس سے کچھ اوپر ملنے چاہءیں۔ سرحد سے پہلے موجود کامبیو کی ایک دکان نے ہمیں ایک ڈالر کے بارہ اعشاریہ بیس پے سو دیے۔ ہم نے وہاں جو رقم تبدیل کی اس کو استعمال کرتے ہوءے ہم ارجینٹینا کے شہر سالتا پہنچ گءے۔ وہ سنیچر کا روز تھا اور رات کے بارہ بج چکے تھے۔ مگر ہم اپنے ہوٹل کے قریب جس پیٹزا کے ریستوران میں پہنچے وہاں میلے کا سماں تھا۔ ہم نے سیر ہوکر کھانا کھایا۔ کھانے کا بل ایک سو پانچ پے سو آیا۔ کالے نرخ پہ یہ رقم نو امریکی ڈالر کے قریب بنتی اور سرکاری نرخ پہ چودہ ڈالر۔ ہم سرکاری اور غیرسرکاری نرخ کا اپنے طور پہ تجربہ کرنا چاہتے تھے اس لیے ریستوراں میں کریڈٹ کارڈ استعمال کیا۔ ریستوراں سے نکل کر جب تک ہم اپنے ہوٹل پہنچے ریستوراں کا بل ہمارے کریڈٹ کارڈ کی ویب ساءٹ پہ آچکا تھا۔ واقعی ہم کو چودہ ڈالر کی مار ماری گءی تھی۔ ہمیں ذرا سی دیر میں سمجھ میں آگیا کہ سیاحوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ ارجینٹینا حکومت کی نااہلی کا بھرپور فاءدہ ڈالر کے کالے نرخ سے اٹھاءیں۔
ڈالر کو پے سو میں تبدیل کرانے کا ایک دلچسپ  تجربہ سانیاگو دیل ایستیرو میں ہوا۔ یہاں اس سودے میں کچھ راز و نیاز نظر آیا۔ کءی جگہ معلوم کیا کہ کالے نرخ پہ ڈالر کہاں سے بھنواءے جاسکتے ہیں؛ کسی نے ایک طرف اشارہ کیا، کسی نے دوسری طرف۔ لوگوں کا ایک دکان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ دکاندار یہ سودا کرتا ہے؛ اس دکان والے سے پوچھا تو اس نے سڑک کے دوسری طرف کھڑے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کردیا کہ شاید وہ 'موچاچو' یہ کام کردے گا۔ ہم سڑک پار کرکے اس نوجوان تک پہنچے تو اس نے جھینپی ہوءی ہنسی ہنستے ہوءے کہا کہ وہ یہ کام نہیں کرتا۔  شاید وہ جس طرح انتظار کی صورت بناءے وہاں کھڑا تھا اس کی وجہ سے دوسروں کو خیال ہوا کہ وہ کالے نرخ کا کام کرتا ہوگا۔ جب کامیابی کی کوءی صورت نہ نکلی تو خیال آیا کہ کسی بینک جا کر ڈالر سرکاری نرخ پہ ہی بھنوالیں۔ اس نیت کے ساتھ ایک قریبی بینک میں داخل ہوءے۔ خوش قسمتی سے وہاں کام کرنے والا ایک ایسا نوجوان مل گیا جو بینک میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی چلا رہا تھا۔ اس نے کالے نرخ پہ ہمارے ڈالر خرید لیے۔ یہی ڈالر اس نے یقینا آگے زیادہ قیمت پہ بیچ دیے ہوں گے۔
بیونس آءرس کی آوینیدا فلوریدا ڈالر کی خرید و فروخت کے لیے مشہور ہے۔ وہاں اووگو نامی ایک ادھیڑ عمر شخص سے ہماری اچھی دعا سلام ہوگءی۔ وہ ہردفعہ بہت تپاک سے ملتا۔ ہم جس نرخ پہ ڈالر بھنوانا چاہتے، وہ مان جاتا، ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں اپنے ساتھ  ایک دفتر میں لے کر جاتا جہاں کاءونٹر کے پیچھے موجود ایک شاطر شخص ہمیں نچلے نرخ پہ ڈالر بیچنے پہ تیار کرلیتا۔ اووگو کے متعلق ہمارا خیال تھا کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا؛ اس نے ایک عرصہ کبھی اس نوکری پہ، کبھی اس نوکری پہ گزارا ہوگا اور اب ڈالر کالے نرخ پہ خریدنے کے دھندے میں لگ گیا تھا۔ کسی روز جب ارجینٹینا کی سرکاری پالیسی تبدیل ہوءی اور ڈالر کا سرکاری اور کالا نرخ یکساں ہوگیا تو اووگو اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

Labels: , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?