Monday, October 06, 2014

 

نقش میر اور سفر کا کچھ حال






ستمبر سات،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پانچ



میں کچھ دیر پہلے نقش میر نامی ایک ادبی محفل سے پلٹا ہوں۔ انڈیا کمیونٹی سینٹر، مل پیٹس میں منعقد کیے جانے والے اس پروگرام میں میر تقی میر کی شاعری پہ گفتگو کی گءی۔ سان فرانسسکو بے ایریا سے تعلق رکھنے والی اردو کی استانی حمیدہ بانو چوپڑہ گزرے شاعروں کے فن پہ اس طرح کے پروگرام باقاعدگی سے منعقد کراتی ہیں۔ نقش میر میں سہیل طالب، جعفر شاہ، سجاتا چوہان، روی خورشید، عطیہ حءی، ارشد عزیز، سلیم ملک، اشرف حبیب اللہ، اور دپتی بھٹناگر نے میر کی چنیدہ غزلیں اور اشعار پیش کیے اور میر کی شاعری اور اپنے انداز بیاں پہ خوب داد حاصل کی۔ حمیدہ بانو چوپڑہ نے ایک مقالہ پڑھا اور حاضرین کو بتایا کہ میر تقی میر کو خداءے سخن کیوں کہا جاتا ہے۔ میر کو اردو زبان کا خدا اس لیے مانا جاتا ہے کیونکہ میر نے جس زمانے میں اردو میں شاعری کی اس وقت اردو ایک نءی زبان تھی اور کم ہی شعرا اس میں شاعری کرتے تھے۔ میر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فارسی تراکیب اور محاورات کو کبھی براہ راست اور کبھی اردو کے قالب میں ڈھال کر اپنی زبان میں استعمال کیا اور اس طرح ارو کو بیان کی وسعت دی۔ میر کے بعد آنے والے شعرا اور ادبا نے میر کے چھوڑے اسی وسیع میدان سے استفادہ کیا اور اس طرح آج جو زبان اردو کے نام سے جانی جاتی ہے وہ ایک طرح سے میر کا نقش سخن ہے۔
نقش میر پروگرام کی مکمل آڈیو یہاں موجود ہے:
https://archive.org/details/NaqshEMeer
حال میں جس طویل سفر سے لوٹا ہوں اس کی کہانی جستہ جستہ لکھ رہا ہوں۔ یہ ہفتہ واری کالم اس کہانی کو ایک جگہ جمع کرنے کا اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔ کہانی کے مختلف حصے مکمل ہونے پہ اس سفرنامے کو کتاب کی شکل دی جا سکے گی۔ تو آج بیان ہوجاءے پے رو کے شمال میں تمبیس سے چک لایو جانے کا۔
تمبیس کے ہوٹل میں آنکھ کھلی تو ایک نءے ملک پہنچنے کا سرور دماغ میں تھا۔ آنکھ بھی اس طرح کھلی تھی کہ کمرہ ایک مصروف سڑک کا رخ کرتا تھا اور پو پھٹتے ہی سڑک چلنا شروع ہوگءی تھی۔ جس وقت بستر چھوڑا اس وقت سورج کھڑکی کے پردے کے پیچھے پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

اس سفر میں قریبا ہفتہ بھر پہلے پاستو، کولومبیا سے کیتو، ایکوادور آتے ہوءے ہم خط استوا پار کرچکے تھے۔ کیتو خط استوا سے ذرا سا شمال میں چند منٹ زاویے پہ واقع ہے۔ جون جولاءی شمالی نصف کرے، یعنی خط استوا سے شمال میں، گرمیوں کے، اور جنوبی نصف کرے میں سردیوں کے مہینے ہوتے ہیں ۔ خط استوا پہ کیونکہ سورج سارا سال ایک ہی زاویے پہ آسمان میں چڑھتا اترتا ہے اس لیے وہاں سردی گرمی کے موسم نہیں ہوتے بلکہ موسم سارا سال ایک جیسا رہتا ہے۔ تمبیس گو کہ خط استوا کے جنوب میں ہے مگر ہم اب تک اتنے جنوب میں نہیں  آءے تھے جہاں سورج کی کرنیں ترچھی پڑنی شروع ہوں اور جون جولاءی صحیح معنوں میں سردی کے مہینے بن جاءیں۔

اس صبح بستر چھوڑنے پہ ذہن میں سوال یہ تھا کہ آیا تمبیس میں ایک روز اور گزارا جاءے یا آگے چلا جاءے۔ ہوٹل کے استقبالیہ پہ معلوم کیا کہ تمبیس میں اور اس کے آس پاس کیا مقامات دیدنی تھے۔ وہاں موجود خوش مزاج شخص نے ہمیں تمبیس میں گھڑیال خانہ دیکھنے کا مشورہ دیا؛  ہمیں سمجھ میں آگیا کہ سفر میں آگے کءی اچھے سیاحتی مقامات آنے والے تھے اس لیے تمبیس میں ایک اور دن ضاءع کرنا فضول تھا۔

ہمارا ہوٹل تمبیس کے مرکز شہر میں پلازا آرماس کے بالکل قریب واقع تھا۔ ہم ناشتے کی تلاش میں باہر نکلے تو پلازا آرماس میں کاروباری سرگرمیاں چالو ہوچکی تھیں۔ وہاں ساتھ ہی موجود گرجا کے باہر ساءمن اینڈ گارفنکل کا گانا 'ساءونڈ آف ساءلینس' ہسپانوی بول کے ساتھ بج رہا تھا۔ دنیا بھر میں اچھی موسیقی کو سراہا جاتا ہے اور لوگ ذرا سی دیر میں اچھی دھن کو اپنا بنا کر اسے اپنی زبان میں ڈھال لیتے ہیں۔

کھانے کی تلاش ہمیں موکا ریستوراں لے گءی۔ موکا نہ صرف باہر سے صاف ستھرا نظر آیا تھا بلکہ اس کے اندر بہت سے لوگ بیٹھے ہوءے تھے۔ نءی جگہ پہنچ کر کھانے کی اچھی جگہ کا انتخاب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ زیادہ آسان یہ ہوتا ہے کہ آپ دیکھیں کہ کس ریستوراں میں زیادہ لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ کھانے کی اس جگہ پہ ان لوگوں کا اعتماد کا ووٹ آپ کے لیے وہاں کھانا اچھا ہونے کی ضمانت ہوتا ہے۔ مگر یہ کلیہ بس اڈے کے قریب موجود کسی ریستوراں پہ لاگو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بس اڈے اور اس کے آس پاس زیادہ تر لوگ مسافر ہوتے ہیں اور ان کے لیے بھیڑ چال میں کسی ریستوراں میں بھر جانا آسان ہوتا ہے۔ موکا ریستوراں میں ناشتے کا وقت گزر چکا تھا؛ زیادہ تر لوگ کافی پی رہے تھے اور ساتھ کھانے کی چھوٹی موٹی چیزیں کھا رہے تھے۔ ایک خاتون کافی مگ ہاتھ میں لیے اپنے سامنے پڑے کاغذات کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ کچھ دیر میں ایک فربہ شخص ریستوراں میں داخل ہوا تو خاتون نے اس شخص سے ہاتھ ملایا اور پھر دونوں کسی جاءیداد کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔

اگر ایندیس پہاڑی سلسلے کو جنوبی امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاءے تو یہ جانیے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی اس براعظم کے بیچوں بیچ نہیں بلکہ بہت مغرب میں واقع ہے۔ اگر پہاڑ سے مشرق میں اتریں تو آپ کو بڑا میدانی علاقہ ملے گا؛ لیکن اگر آپ مغرب میں اتریں تو مختصر سطح مرتفع سے گزرنے کے فورا بعد آپ سمندر تک پہنچ جاءیں گے۔ ایندیز پہ برسنے والی بارش اور برف باری سے بننے والے دریا زیادہ تر پہاڑ کے مشرق سے نیچے اترتے ہیں۔ ہم ایندیز کے مغرب میں تھے اور وہ علاقہ بڑی حد تک صحراءی تھا۔ تمبیس یوں آباد تھا کہ اس سے قریب ایک دریا پہاڑ سے اتر کر سمندر میں گرتا تھا۔

تمبیس کا نمک کھانے کے بعد اسے الوداع کہنے کا وقت آگیا۔ تمبیس سے منکورا جانے والی وین جب تک اپنے اڈے پہ کھڑی رہی مسافروں کا گرمی سے برا حال رہا۔ وین چلنا شروع ہوءی اور نیم وا کھڑکیوں سے کچھ ہوا آءی تو لوگوں کی جان میں جان آءی۔

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?