Friday, October 24, 2014

 

کنوینشن کے بعد، ملالہ






اکتوبر بارہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو دس


کنوینشن کے بعد، ملالہ

دسواں این ای ڈی المناءی کنوینشن ختم ہوا اور بہت سی خوشگوار یادیں چھوڑ گیا۔ یہ دسواں کنوینشن پچھلے نو سے کچھ مختلف تھا۔ پچھلے نو کنوینشن میں باہر سے آنے والے لوگ جس ہوٹل میں ٹہرتے تھے اسی ہوٹل میں کنوینشن کی تمام کارواءی ہوتی تھی۔ اس دسویں کنوینشن میں بیرون شہر سے آنے والوں کے لیے ٹہرنے کا انتظام ہلٹن ہوٹل نوارک میں تھا مگر کنوینشن کی تمام محفلیں چاندنی ریستوراں میں ہوءیں۔ اور ایسا دو وجہ سے ہوا۔ اول تو یہ کہ کنوینشن کے منتظمین نے جب کنوینشن کی تاریخ طے کی تو انہیں معلوم ہوا کہ اس علاقے کے بہت سے ہوٹل ان تاریخوں کے لیے بک تھے۔ اور دوسری وجہ یہ کہ اگر کسی ہوٹل میں جگہ موجود بھی تھی تو ان کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے تھے۔ ایسے میں ہلٹن ہوٹل نوارک کا چاندنی ریستوراں کے روبرو ہونا ایک نعمت معلوم دیا۔ کوءی سیانا یہ ترکیب لایا کہ بیرون شہر مہمانوں کو ہلٹن ہوٹل میں ٹہرانے اور کانفرینس کا اہتمام چاندنی ریستوراں میں کرنے میں پیسوں کی بچت تھی، چنانچہ یوں ہی کیا گیا۔ یہ تجربہ کتنا کامیاب ہوا اس کا فیصلہ کنوینشن کے مندوبین کو کرنا تھا۔ کنوینشن کے شرکا کی راءے لی گءی تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر لوگوں کے لیے ہوٹل سے نکل کر سڑک پار کرنا اور پھر چاندنی ریستوراں پہنچنا کوءی مسءلہ نہ تھا۔ گنتی کے چند لوگوں کو اس انتظام پہ اعتراض تھا اور ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسا نہ کیا جاءے۔ بات یہ ہے کہ کنوینشن میں شرکت کرنے والے بیشتر لوگوں کی واحد دلچسپی اپنے پرانے ساتھیوں سے ملنے میں ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے لیے باقی سب تفصیلات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک اور بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کنوینشن کے اخراجات ٹکٹ سے ہونے والی آمدنی سے بہت زیادہ ہوتے ہیں چنانچہ بجٹ کو توازن میں لانے کے لیے مخیر افراد سے چندے حاصل کیے جاتے ہیں۔ بجٹ میں خسارہ جتنا زیادہ ہوگا اس قدر زیادہ متمول افراد کے سامنے ہاتھ پھیلانے ہوں گے۔ ایک ترکیب یہ ہوسکتی ہے، اور بہت سے لوگ اس ترکیب کے حق میں ہیں، کہ کنوینشن کو اپنے پاءوں پہ کھڑا کیا جاءے۔ ٹکٹ کی قیمت بڑھاءی جاءے اور اسی آمدنی سے کنوینشن کے تمام اخراجات پورے کیے جاءیں۔ اگر واقعی ایسا کیا جاءے تو کنوینشن کے ٹکٹ کی قیمت سو ڈالر فی نفر سے بڑھ کر تین سو ڈالر کے قریب ہوجاءے گی۔ ٹکٹ کی قیمت تین گنا بڑھانے سے شرکا کی تعداد پہ کیا اثر پڑے گا؟ شاید یہ تجربہ کرنے ہی سے صحیح نتاءج معلوم ہوں۔
اس کنوینشن میں منتظمین کو ملالہ سے متعلق بھی چند حقاءق معلوم ہوءے۔ کنوینشن میں سنیچر کی شام کے لیے ایک عالمی سطح پہ مشہور شخصیت کی تلاش ہوءی تو بہت سے منتظمین کی نظر ملالہ یوسف زءی پہ ٹہری۔ ملالہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گءی تو معلوم ہوا کہ ملالہ نے اپنے گرد ایک حلقہ آتش کھڑا کردیا ہے۔ اور آگ کا یہ داءرہ ملالہ کی پی آر فرم ہے۔ آپ ملالہ سے براہ راست بات نہیں کرسکتے۔ آپ کی ملالہ سے بات اس کی پی آر کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ جب ایڈلمین نامی اس پی آر فرم کے توسط سے ملالہ کو کنوینشن سے خطاب کرنے کی دعوت دی گءی تو دوسری طرف سے جھٹ نفی کا جواب آگیا۔ اب کی بار ملالہ کی داءی شارلٹ پیٹن سے فون پہ بات کی گءی۔ شارلٹ کو سمجھانے کی کوشش کی گءی کہ ملالہ کا موجودہ تاثر یہ ہے کہ ملالہ ایک مغربی ایجنٹ ہے۔ اور اس تاثر کی وجہ یہ ہے کہ ملالہ پاکستان چھوڑنے کے بعد مغربی میڈیا کی زینت بنی ہوءی ہے اور مغربی حکمراں اور بااثر افراد ملالہ کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔ ملالہ دنیا بھر میں لڑکیوں اور عورتون کی تعلیم پہ کام کرنا چاہتی ہے۔ ملالہ پہ مغربی ایجنٹ کا لگنے والا لیبل ملالہ کے فلاحی کاموں کے لیے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ ملالہ جن علاقوں میں کام کرنا چاہتی ہے وہاں اکثر جگہ مغرب اور مغرب کے حواریوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ملالہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ 'اپنے' لوگوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ نظر آءے تاکہ اس کے فلاحی کاموں کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکیں۔ منتظمین کو محسوس ہوا کہ شارلٹ پیٹن کو یہ منطق سمجھ میں آگءی ہے۔ شارلٹ نے وعدہ کیا کہ وہ ملالہ کے گھر والں سے پوچھ کر بتاءیں گی۔ اس پوچھ گچھ میں ہفتے بھر سے زیادہ نکل گیا اور پھر آخری جواب وہی انکار کا آیا۔ ملالہ پہ ترس آیا کہ وہ گریگ مارٹینسن کی راہ پہ چل پڑی ہے۔ یہ وہ راہ ہے جس میں فلاحی کام کا دعوی کرنے والے شخص کی زیادہ مقبولیت اس جگہ ہوتی ہے جہاں وہ شخص چندہ جمع کررہا ہوتا ہے۔ جہاں اس شخص کو فلاحی کام کرنا ہوتا ہے وہاں مشکل ہی سے کوءی اس شخص کو جانتا ہے۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?