Monday, October 06, 2014

 

شکیل اوج اور ہوان کارلوس





ستمبر اکیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو سات



اعتقاد اور ساءنس میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اعتقاد میں سوال کرنے کی گنجاءش نہیں ہوتی۔ جو بتایا جا رہا ہے اس کو چپ چاپ مانو۔ اعتقاد کے مقابلے میں ساءنس انسانی نفسیات سے قریب تر ہے۔ انسان کا ذہن آزاد ہے۔ ذہن میں کبھی ایک خیال آتا ہے اور کبھی دوسرا۔ ذہن پرانے، مانے گءے اعتقادات پہ بھی سوال کرتا ہے۔ یہ انسان کا چوکڑیاں مارتا ذہن ہے جو کسی بھی مذہب میں مختلف مکتبہ فکر پیدا کرتا ہے۔ آگے چل کر یہی مکاتب فکر جدا فرقے بناتے ہیں اور پھر ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ فرقے کی بنیاد میں موجود اصل آزاد خیالی سے انحراف کرتے ہوءے سخت تقلید اور اعتقاد کا راستہ اپناتے ہیں۔
 مدرسوں میں اعتقادات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ جدید دور کی جامعات میں ساءنسی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس تعلیم میں کوءی اعتقاد، کوءی مذہب، کوءی خدا، کوءی پیغمبر سوال کی پہنچ سے باہر نہیں خیال کیا جاتا۔ چند روز قبل جامعہ کراچی کے پروفیسر شکیل اوج کا قتل اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جہاں پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور آزادی راءے کی جگہ تنگ ہورہی ہے وہیں ہر جامعہ کو مدرسہ بنانے کی کوششیں بھی  جاری ہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال میں اصلاح کی صورت یوں نظر نہیں آتی کہ معاشرے کے زیادہ تر لوگ اعتقاد پسند ہیں اور فتنہ پرور مذہبی راہ نماءوں کی اخلاقی قیادت تسلیم کرتے ہیں۔ معاشرے کے بہت سے لوگ نہایت اطمینان سے ان 'مذہبی علما' کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں جو اپنے سے اختلاف راءے رکھنے والوں پہ واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتے ہیں اور معاشرے میں فساد کا اصل منبع ہیں۔
اب کراچی پہ کتنا دل خراب کیجیے۔ کچھ پرانی باتیں ہوجاءیں۔
ہوان کارلوس کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ اگر ہوان مجھے انڈونیشیا یا ملاءیشیا کے کسی بازار میں نظر آتا تو میں ذرہ برابر بھی یہ خیال نہ کرتا کہ ہوان کوءی مقامی نہ تھا بلکہ اس کا تعلق جنوبی امریکہ کے ملک پے رو سے تھا۔ میں پے رو کے شہر پونو کے جس ہوٹل میں ٹہرا ہوا تھا اس کا انتظام ہوان کارلوس اور اس کا خاندان چلاتا تھا۔
انسان کی افریقہ سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل جانے کی کہانی اب محض ایک ساءنسی تھیوری نہیں رہی بلکہ مضبوط فوسل ریکارڈ کی بنیاد پہ کھڑی ہوکر اب یہ ایک مستند تاریخ بن گءی ہے۔ جب تک انسان اس دنیا میں نمودار ہوا برا عظم شمالی اور جنوبی امریکہ  افریقہ سے ٹوٹ کر دور جا چکے تھے۔ انسان افریقہ سے نکلا اور شکار کی تلاش میں مستقل آگے بڑھتا بڑھتا ہزاروں سال میں یورپ اور ایشیا کے دور دراز علاقوں میں پہنچ گیا۔ قریبا چالیس ہزار سال پہلے کے برفانی دور میں سمندروں کی سطح کم ہوگءی تھی اور قطبین پہ برف کے تودے بڑھ گءے تھے۔ روسی علاقے ساءبیریا اور امریکی ریاست الاسکا کے بیچ میں آج جو آبناءے  بیرنگ ہے اس میں پانی نہ ہونے کے برابر تھا اور آپ ساءبیریا سے پیدل چلتے ہوءے الاسکا پہنچ سکتے تھے۔ چالیس ہزار سال پہلے کا انسان اسی زمینی راستے سے چلتا ہوا ایشیا سے شمالی امریکہ پہنچا تھا۔ یہ زمینی راستہ کءی ہزار سال کھلا رہا مگر برفانی دور ختم ہونے پہ زیرآب آگیا۔ اس موقع پہ امریکین [شمالی اور جنوبی امریکہ] کا انسان ایشیا-افریقہ-یورپ کے انسان سے کٹ گیا۔ کولمبس کی دریافت سے پہلے اگر پرانی دنیا کے لوگوں کا کوءی واسطہ 'نءی دنیا' سے پڑا تو وہ منظم اور باقاعدہ نہ تھا۔ مثلا کہا جاتا ہے کہ موجودہ گرین لینڈ سے لوگ شمالی امریکہ آءے، یا پولینیشیا جزاءر سے لوگوں کا جانا جنوبی امریکہ ہوا تھا مگر قوی قیاس یہی ہے کہ اگر پرانی دنیا سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کا رابطہ امریکین کے لوگوں سے ہوا تو ایسا محض حادثاتی تھا۔

انسان کے بستیوں کی صورت میں بس جانے کے بعد پرانی دنیا میں مضبوط تجارتی راستے قاءم ہوگءے تھے، جن کی وجہ سے خیالات اور ٹیکنالوجی پرانی دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے تھے۔ پرانی دنیا اور امریکین کے درمیان ایسے کوءی تجارتی راستے نہ تھے۔ چنانچہ قریبا دس ہزار پہلے موجودہ انڈونیشیا میں مرغی کو سدھانے کے بعد مرغ بانی کی ٹیکنالوجی رفتہ رفتہ پورے ایشیا اور پھر یورپ اور افریقہ میں پھیل گءی۔ مگر یہ فن امریکین نہ پہنچ پایا۔ چنانچہ پرانی دنیا میں تو پچھلے آٹھ دس ہزار سال سے لوگ صبح کے ناشتے میں انڈے کھاتے ہیں مگر امریکین میں یہ کھاجا نیا ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گءی۔ بات ہورہی تھی ہوان کارلوس اور اس کے چینی نقوش کی۔ ہوان کارلوس کو دیکھ کر یہ خیال آتا تھا کہ آخر چین کی مٹی میں ایسی کیا خاصیت ہے کہ وہاں سے بیس تیس ہزار سال پہلے آنے کے باوجود آج بھی اس مٹی کا اثر امریکین کے مقامی باشندوں کی شکلوں میں نظر آتا ہے۔

پونو سے کچھ ہی فاصلے پہ سیوستانی کھنڈرات ہیں جو ایمارا تہذیب کی نشانی ہیں۔ سیوستانی کھنڈرات دراصل قبرستان ہیں، ایک ایسا قبرستان جس میں مردے کو ایک مینار میں اس حالت میں اتارا جاتا تھا جس شکل میں بچہ بطن مادر میں ہوتا ہے، یعنی دونوں گھٹنے پیٹ سے لگے ہوءے اور سر آگے کی طرف جھکا ہوا۔ ایمارا لوگ مردے کو اس پیش ولادت شکل میں اس لیے 'دفن' کرتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مردہ موت کے بعد ایک اور دنیا میں پیدا ہوگا۔ ایمارا کے اعتقاد میں تین طرح کی دنیاءیں ہوتی ہیں۔ ایک تاریک دنیا جس میں انسان پیداءش سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ ایک یہ دنیا جس میں آپ اور میں چل پھر رہے ہیں اور ایمارا کے اعتقادات کی بات کررہے ہیں۔ اور تیسری آسمانی دنیا جس میں انسان اس زندگی سے گزر جانے کے بعد پہنچتا ہے۔

سیوستانی جانے والی جس ٹور بس نے ہمیں ہوٹل پاچا سے اٹھایا وہ کافی دیر تک شہر میں چکر لگا کر مسافروں کو جمع کرتی رہی۔ ہم نے ہوان کارلوس سے مول تول کر کے سیوستانی ٹور کی قیمت طے کی تھی۔ بس میں بیٹھے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ  بس کے دوسرے مسافر نہ جانے اس ٹور کی کیا قیمت دے رہے تھے۔ جب بس سیوستانی جانے والے مسافر جمع کرچکی تو اس نے کھنڈرات کے راستے میں ایک ایسے گاءڈ کو اٹھایا جو مختلف زبانیں جانتا تھا۔ اس گٹھے قد کے گاءڈ نے پہلے ہسپانوی میں ایک چھوٹی سی تقریر کی اور پھر انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا۔ 'سیاحوں کو اس سے زیادہ تنگ نہیں کرنا چاہیے، اس لیے اب میں خاموش ہوجاتا ہوں تاکہ کھنڈرات پہنچنے کا آپ لوگ قیلولہ کرسکیں،' اس نے سیاحوں سے مذاق کیا اور پھر اپنے ہی مذاق پہ خوب ہنسا۔ کچھ لوگ اس کی دل جمعی میں اس کے ساتھ ہلکا سا ہنسے۔
سورج آسمان میں چڑھا ہوا تھا اور جن لوگوں نے صبح کی ٹھنڈک سے بچنے کے لیے جیکٹ پہنی تھی، اب ان جیکٹوں کو آگے سے کھول لیا تھا۔ بس پونو سے نکل کر اونچاءی پہ چڑھی تو جھیل تیتیکاکا کے مغربی حصے کا منظر نظروں کے سامنے آگیا۔ ہم کچھ دور اس ہاءی وے پہ چلے جس پہ چلتے ہوءے ایک روز پہلے پونو پہنچے تھے اور پھر مشرق کی طرف مڑ گءے۔ اب آبادی خال خال نظر آتی تھی۔ کوءی گھر سڑک کے قریب نظر آتا تو ہم اس کا حتی الامکان معاءنہ کرکے لوگوں کا رہن سہن دیکھنے کی کوشش کرتے۔ یورپیوں کے آنے سے پہلے مقامی لوگ یاما نامی جانور کی گلہ بانی کرنے تھے۔ سیوستانی جاتے ہوءے ہمیں بہت سے گھروں میں پالتو یاما نظر آءے۔

Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?