Monday, October 06, 2014

 

ماچو پیچو کا ٹوپی ڈرامہ




اگست چوبیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو تین


ماچو پیچو کا ٹوپی ڈرامہ




پاکستان میں عمران خان کا سیاسی جوا ابھی اپنے اختتام تک نہیں پہنچا ہے۔ عمران خان نے سب کچھ داءو پہ لگا کر ایک ایسی بازی کھیلی ہے جس میں فی الحال انہیں شکست ہوتی دکھاءی دے رہی ہے، مگر کیا یہ شکست حتمی ہے، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تو زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ ہم خاموشی سے تماشہ دیکھیں اور میں آپ کو پچھلے سفر سے ایک واقعہ سناءوں۔
ایک عرصے سے میں سفر میں ٹوپیاں گم کرتا رہا ہوں۔ میں نے کءی چھتریاں بھی گم کی ہیں مگر پھر مجھے عقل آءی، میں نے سفر میں چھتری ساتھ رکھنا چھوڑ دی اور چھتری گم ہونے کی کوفت سے بچ گیا۔ مگر سفر میں ٹوپی کا ساتھ نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں دن کا بیشتر حصہ کھلے آسمان تلے گزرتا ہے اور سخت دھوپ سے بچنے کے لیے آپ کو ٹوپی چاہیے ہوتی ہے۔ ایک ٹوپی جو مجھے بہت پسند تھی حالیہ سفر میں ماچو پیچو کے راستے میں گم ہوءی۔ ماچو پیچو کیونکہ مجھے ایک فراڈ معلوم دیا اسی لیے میں اس پورے واقعے کو ماچو پیچو کا ٹوپی ڈرامہ کہتا ہوں۔  قصہ کچھ یوں ہے کہ سردیوں کے سفر کے بعد مجھے اپنی پرانی ٹوپی نہیں مل رہی تھی۔ اسی درمیان میں مجھے ایک ایسا کام ملا جس میں دن کا بڑا حصہ ایک عمارت کی چھت پہ گزارنا تھا۔ میں وہاں جانے سے پہلے اسپورٹس اتھارٹی نامی دکان پہ گیا جہاں مجھے ایک بہت اچھی ٹوپی مناسب قیمت میں مل گءی۔ اس ٹوپی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ بہت ہلکی پھلکی تھی۔ اسے تہہ کر کے جیب میں رکھا جاسکتا تھا اور پھر کام پڑنے پہ جیب سے نکال کر اسے سر پہ رکھیں تو اس کا چھجا بالکل صحیح طور سے کھل کر آپ پہ سایہ کرلیتا تھا۔ میں اتنی اچھی ٹوپی یوں آسانی سے مل جانے پہ بہت خوش تھا۔ جب میں سفر پہ نکلا تو اس ٹوپی کو ساتھ لے گیا۔ جنوبی امریکہ کا یہ سفر اس لحاظ سے میرے لیے منفرد تھا  کہ اس سفر کا آغاز خط استوا کے شمال سے ہونا تھا اور اسے خط استوا سے کافی نیچے جنوب میں ختم ہونا تھا۔ یعنی ہمیں شمالی نصف کرہ میں جون، جولاءی کا موسم گرما دیکھنا تھا، پھر خط استوا کو پار کرتے ہوءے جنوبی نصف کرہ کے موسم سرما میں داخل ہوجانا تھا۔ بوگوتا سے بسوں کا سفر کرتے کرتے ہم پے رو جا پہنچے۔ آپ پے رو جاءیں اور ماچو پیچو نہ جاءیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ماچو پیچو کھنڈرات جانے کے سلسلے میں تحقیق کی تو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ ماچو پیچو ایک سیاحتی شکنجہ [ٹورسٹ ٹریپ] ہے۔ مگر نہ چاہتے ہوءے بھی ہمیں اس شکنجے میں پھنسنا تھا۔ اس شکنجے کا پہلا مزا تو اس وقت چکھنے کوملا جب لیما سے کزکو جانے کا سوال اٹھا۔ کزکو وہ قصبہ ہے جو ماچو پیچو کے کھنڈرات کے نزدیک بڑی آبادی ہے۔ بس کے سفر کے متعلق معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ کزکو جانے کے لیے بسیں لیما سے دن بارہ بجے نکلتی ہیں اور بیس گھنٹے کا سفر کر کے اگلے روز کزکو پہنچاتی ہیں۔ میں بس میں بہت طویل فاصلے طے کرسکتا ہوں مگر میں یہ سارا سفر دن کی روشنی میں کرنا چاہتا ہوں۔ بس کا سفر رات کی تاریکی میں کرنے کا کیا فاءدہ کہ جب آپ کو باہر کچھ نظر ہی نہ آءے؟ بہت کوشش کی کہ اس لمبی مسافت کو توڑ کر کءی حصوں میں کیا جاءے، مگر کوءی بات بنتی نظر نہ آءی۔ ہواءی جہاز کا کرایہ معلوم کیا۔ اندازہ ہوا کہ ہواءی جہاز کا کرایہ مناسب تھا، اور یوں ہواءی جہاز کے سفر سے ناپسندیدگی کے باوجود جہاز سے کزکو پہنچنا ہوا۔ اب کزکو سے ماچو پیچو کے کھنڈرات تک کیسے جایا جاءے؟ وہاں جانے کا ایک ہی راستہ تھا، یعنی ریل گاڑی اور ریل کے کراءے آسمان کو چھو رہے تھے۔ ماچو پیچو کھنڈرات کو یونیسکو کی آشیرباد حاصل ہے اور اسی کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے پے رو کے حکام ماچو پیچو جانے کے شوقین سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر خیال آیا کہ ماچو پیچو جانے کا خیال ترک کیا جاءے اور کزکو سے بولیویا کے لیے کوچ کیا جاءے۔ مگر پھر سوچا کہ نہ جانے پھر کبھی پے رو آنا نصیب ہو یا نہ ہو، اب یہاں تک پینچے ہیں تو دل کڑا کر کے یہ عالمی شہرت یافتہ کھنڈرات دیکھ ہی لیں۔ ریل گاڑی کے جو ارزاں ترین ٹکٹ خریدے اس میں ریل گاڑی کے کھنڈرات کے قریب پہنچنے کے وقت اور وہاں سے واپسی کے وقت کے درمیان محض چار گھنٹے کی مدت تھی۔ سفر کچھ یوں ہونا تھا کہ پہلے کزکو سے بس سے اویان تامبو نامی گاءوں جانا تھا؛ اویان تامبو سے اگواز کالینتیز نامی گاءوں ریل گاڑی سے؛ پھر اگواز کالینتیز سے اونچاءی پہ موجود ماچو پیچو کھنڈرات تک ایک وین سے۔ ہم نے سیدھ یہ باندھی کہ ریل گاڑی جیسے ہی اگواز کالینتیز پہنچے گی، ہم بھاگتے ہوءے جاءیں گے اور کھنڈرات جانے والی وین میں سوار ہوجاءیں گے۔ یہ بھاگ دوڑ اس لیے کرنی تھی تاکہ کھنڈرات کو دیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت ملے۔ چنانچہ یہاں ریل گاڑی اگواز کالینتیز کے اسٹیشن پہ رکی اور یہاں ہم گاڑی سے کودے اور تیز تیز قدموں چلتے کھنڈرات تک جانے والی وین تک پینچے اور فورا اس میں سوار ہونا چاہا۔ معلوم ہوا کہ وین کا انتہاءی گراں ٹکٹ جو غیرملکیوں سے نقد ڈالروں میں لیا جاتا ہے سڑک کے ساتھ موجود ایک کھوکھے سے ملے گا۔ بھاگ کر وہاں پہنچے اور ٹکٹ خرید کر وین میں سوار ہوءے۔ وین چلنے سے پہلے ہم سے پوچھا گیا کہ آیا ہمارے پاس کھنڈرات کا داخلہ ٹکٹ تھا۔ ہم نے کہا کہ ہم داخلہ ٹکٹ کھنڈرات پہ پہنچ کر لیں گے۔ بتایا گیا کہ نہیں کھنڈرات پہ کوءی ٹکٹ گھر نہیں ہے، ٹکٹ یہیں اگواز کالینتیز سے لینا ہوگا۔ ہمیں جلدی میں وین سے اترنا پڑا۔ کھنڈرات کا داخلہ ٹکٹ خرید کر اگلی وین میں سوار ہوءے تو اپنے سامان پہ نظر ڈالی۔ ٹوپی غاءب تھی۔ اگواز کالینتیز کے اسٹیشن سے اترنے کے بعد تو ٹوپی ہمارے سر پہ تھی مگر پھر ہم نے اسے کس وقت اتارا اور کہاں چھوڑ دیا، یہ خبر نہ تھی۔ وہ سخت دھوپ کا دن تھا اور اس روز اس پسندیدہ ٹوپی کا صحیح استعمال ہونا تھا مگر ٹوپی گم ہوچکی تھی۔ ماچو پیچو نے ٹرین کے ٹکٹ، وین کے ٹکٹ، اور داخلہ ٹکٹ میں ہمیں بری طرح ٹھگ لیا تھا اور اب ٹوپی کا نقصان علیحدہ تھا۔ ہم سخت غصے میں تھے۔ کھنڈرات پہ پہنچ کر ایک دکان نظر آءی۔ وہاں  داخل ہو کر ٹوپیوں کی قیمت معلوم کی تو اندازہ ہوا کہ کھنڈرات سے متعلق تمام افراد ہماری کھال اتارنے کے لیے بیتاب تھے۔ ایک نہایت گھٹیا معیار کی ٹوپی کی قیمت تیس ڈالر بتاءی گءی۔ تیس سولیز، نا؟ ہم نے غیر یقینی سے پوچھا۔ جواب آیا، نہیں، تیس امریکی ڈالر۔ ہم پاءوں پٹخ کر دکان سے باہر نکل آءے۔
ماچو پیچوپہنچ کر ہم نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھنڈرات کا معاءنہ کیا مگر لٹ جانے کا خیال مستقل دل ڈبوتا رہا۔ وہیں کھڑے کھڑے ہم نے ماچو پیچو کی ہزار براءیاں تلاش کرلیں۔ کھنڈرات کی سب سے بڑی کمی یہ تھی کہ وہاں ماچو پیچو کی تاریخ لکھاءی کی شکل میں نہیں تھی کہ آپ کھنڈرات دیکھتے جاءیں اور کھنڈرات کے ساتھ موجود تختیاں پڑھ کر کچھ سیکھتے جاءیں۔ ان کھنڈرات کے متعلق جو کچھ ہم نے ایک روز پہلے یو ٹیوب پہ موجود مختلف ویڈیو سے سیکھا تھا وہی ہمارے کام آیا۔
ماچو پیچو کراچی کی زبان میں اس لیے 'ٹوپی ڈرامہ' ہے کیونکہ وہاں چند اصل کھڑی دیواروں کےعلاوہ سب کچھ اندازے سے بنایا گیا ہے اور اس تعمیر کو ایسی شکل دی گءی ہے کہ دیکھنے والے کو لگے کہ وہ شکستہ عمارتیں بہت قدیم ہیں۔ یہ مصنوعی تعمیر شدہ کھنڈرات عجیب ہءیت  کے پہاڑوں کے دامن میں ایک پراسرار منظر پیش کرتے ہیں۔ ماچو پیچو کا اصل کارنامہ اس کی مارکیٹنگ میں ہے۔ پے رو کے حکام اور سیاحتی ایجنسیاں پہاڑوں سے گھرے کھنڈرات کے منظر کو تصاویر اور پوسٹر کے ذریعے دنیا کے سامنے یوں پیش کرتے ہیں کہ دنیا والے بھاگے بھاگے ماچو پیچو جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر اچھی طرح لٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔



Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?