Thursday, August 28, 2014

 

اسنسیوں میں ایک رات


اگست سترہ،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو دو


اسنسیوں میں ایک رات

 
سفر میں مجھے بس کے لمبے سفر بہت پسند ہیں۔ آپ بس میں بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھتے رہیں اور دنیا آپ کے سامنے اپنے تمام کرتب دکھاتی رہے۔ یہ زمینی سفر ایک ایسی کل جہتی تعلیمی تجربہ ہوتا ہے جس میں ارضیات سے لے کر معاشیات تک بیشتر علوم ایک ساتھ آپ کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ حال میں مجھے جنوبی امریکہ کے سفر کا جو تجربہ ہوا اس میں سب سے زیادہ دشواری پاراگواءے جانے میں پیش آءی۔
پاراگواءے کے بارے میں نہ جانے کیوں یہ خیال تھا کہ اس کا ویزا سرحد پہ مل جاءے گا۔ بولیویا کے شہر سانتا کروز پہنچ کر انٹرنیٹ پہ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پاراگواءے کا ویزا سرحد پہ نہیں مل سکتا، اسے سرحد پہ پہنچنے سے پہلے حاصل کرنا ہوگا۔ وہ جو خیال تھا کہ سانتاکروز پہنچنے کے دوسرے دن پاراگواءے کی حدود میں داخل ہوجاءیں گے، وہ منصوبہ اچانک تہ بالا ہو گیا۔ سانتا کروز میں پاراگواءے کا قونصل خانہ موجود تھا مگر وہاں تک پہنچنے میں یہ  مسءلہ ہوا کہ پہلے یہ قونصل خانہ مرکز شہر میں ہوا کرتا تھا اور اس کا وہی پرانا پتہ انٹرنیٹ پہ ہرجگہ موجود تھا۔ ہم جب اس پرانے پتے پہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ پاراگواءے کا قونصل خانہ وہاں سے کہیں اور منتقل ہوچکا تھا۔ کہاں؟ یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی۔ لے دے کر وہی اسکاءپ کام آیا۔ ہوٹل واپس آ کر اسکاءپ سے لاپاز میں واقع پاراگواءے کے سفارت خانے کو فون ملایا اور ان سے ان کے سانتا کروز کے قونصل خانے کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر حاصل کیا۔ ٹیکسی سے بھاگم بھاگ قونصل خانے پہنچے۔ قونصل خانہ اب شہر کے متمول علاقے میں منتقل ہوچکا تھا۔ وہ ایسا علاقہ تھا جہاں بنی ٹھنی بیگمات جم میں ورزش کرنے کے لیے بھاری بھرکم چمکدار گاڑیوں سے اتر رہی تھیں۔ قونصل خانے میں جن دو خواتین سے بات ہوءی ان کا کہنا تھا کہ ویزا کم از کم تین دن میں ملے گا۔ وہ جمعے کا روز تھا۔ اگر اس روز پاسپورٹ دیا جاتا تو ویزا اگلے ہفتے منگل کے روز ملتا۔ ہم اتنے دن سانتاکروز میں گزارنے کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ پاسپورٹ جیب میں ڈالا اور دل ہی دل میں پاراگواءے کو صلواتیں سناتے واپس اپنے ہوٹل پلٹ آءے۔ بولیویا سے پاراگواءے نہ جا سکے اور طوعا و کرہا اپنے سفری منصوبے کو بدلتے ہوءے زمینی راستے سے ارجینٹینا میں داخل ہوگءے۔
ارجینٹینا میں سفر کے دوران ایک خلش رہی کہ میں پاراگواءے کیوں نہ جاسکا۔ چنانچہ اس سفر میں جب آگے بڑھ کر اوروگواءے کی سرحد پار کی اور اوروگواءے کے دارالحکومت مونتے ویدیو پہنچے تو دل میں موجود کسک نے پھر سر اٹھایا۔ ایک روز صبح ہی صبح مونتے ویدیو میں پاراگواءے کے سفارت خانے پہنچا۔ اس پتے تک پہنچنے میں پھر یہی دشواری پیش آءی کہ انٹرنیٹ پہ موجود معلومات درست نہ تھی۔ ڈھونڈتا ڈھانڈتا جب میں صحیح پتے پہ پہنچا تو تو قونصل خانے کا ملاقاتی کمرہ بھاءیں بھاءیں کررہا تھا۔ مجھ سے ملنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو لوگ آءے۔ شاید وہ دونوں افسران بوریت کا شکار تھے اور ایک نیا چہرہ دیکھ کر خوش ہوءے تھے۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ اگر میں سارے کاغذات اور ویزے کی رقم بارہ بجے سے پہلے جمع کرادوں تو مجھے ویزا دوپہر میں مل جاءے گا۔ یہ ساری باتیں طے کرنے کے بعد جب تک کاغذات جمع  ہوءے، بارہ بج چکے تھے۔ اور اس طرح پاراگواءے کا ویزا ایک بار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔
پاراگواءے کا ویزا حاصل کرنے کا تیسرا اور آخری موقع بیونس آءریس میں ملا۔ انٹرنیٹ سے معلوم ہوا کہ قونصل خانہ اس ہوٹل سے بہت نزدیک تھا جہاں میں ٹہرا ہوا تھا۔ دو دفعہ انٹرنیٹ سے چوٹ کھایا بیٹھا تھا اس لیے دل میں خدشہ تھا کہ انٹرنیٹ سے حاصل ہونے والا قونصل خانے کا پتہ غلط نہ ہو۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ قونصل خانے کے پتے پہ پہنچا تو قونصل خانے کو واقعی وہاں موجود پاکر بہت خوش ہوا۔ قونصل خانے کی مرکزی انتظارگاہ میں گہما گہمی تھی، مگر ویزے کی کارواءی ایک چھوٹی متصل عمارت میں ہونا تھی۔ اس عمارت میں داخل ہوا تو ایک بھاری بھرکم شخص کو فون پہ امریکی لہجے میں انگریزی بولتے پایا۔ موصوف ویزا افسر تھے۔ میں ان کے انتظار میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ فون پہ ان کی گفتگو ختم ہوءی تو ان سے تفصیلی بات ہوءی۔ وہ امریکی لہجے میں اس لیے انگریزی بول رہے تھے کیونکہ ان کا بچپن نیوجرسی میں گزرا تھا۔ میں نے بھی جرسی سٹی میں چند ماہ گزارے ہیں، اس لیے ان سے فورا دوستی گانٹھ لی۔ جرسی سٹی، سیکاکس، اور نیویارک کے مختلف علاقوں کو ساتھ بیٹھ کر یاد کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس بجے ویزے کی درخواست جمع کراءی اور دوپہر تین بجے ویزا مل گیا۔ دما دم مست قلندر۔
پاراگواءے کے ویزے کے سلسلے میں کی جانے والی اس تمام بھاگ دوڑ کے باوجود میں اسنسیوں میں صرف ایک رات گزار سکا۔ مگر مجھے اطمینان ہے کہ میں نے سیوداد دل ایستے سے اسنسیوں تک جو بس کا سفر کیا اس سے پاراگواءے میرے سامنے کچھ کھل گیا۔ پورے جنوبی امریکہ میں روایتی اور جدید طرز زندگی میں جو کشمکش جاری ہے، اس لڑاءی میں پاراگواءے کہاں کھڑا ہے، یہ بات مجھے اچھی طرح سمجھ میں آگءی۔ اور اطمینان یہ بھی ہے کہ مجھے پاراگواءے کا جو ویزا ملا ہے وہ اگلے پانچ سال تک کارآمد ہے۔
==

Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?