Wednesday, August 27, 2014

 

فلسطینی مزاحمت کاروں کی عظمت کو سلام


اگست دس،  دو ہزار چودہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ایک


فلسطینی مزاحمت کاروں کی عظمت کو سلام



غزہ میں مقید فلسطینیوں کی ہمت قابل تحسین ہے۔ ان کو تین طرف سے اسراءیل نے اور ایک طرف سے مصر نے اپنے قابو میں کیا ہوا ہے مگر اس کے باوجود وہ اسراءیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں، خوب لڑ رہے ہیں۔
امریکی حکومت حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ ہم حماس کو ایک حریت پسند تحریک خیال کرتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فلسطینی بچے اسراءیلی سپاہیوں کو پتھر کیوں مارتے ہیں۔ جواب واضح ہے۔ اور وہ یہ کہ امریکہ اور مغربی دنیا ہتھیار صرف اسراءیلیوں کو فراہم کرتی ہے۔ جس روز فلسطینیوں کو بھی کھلم کھلا ہتھیار ملنے لگے  اس روز وہ چھپ کر لڑنا چھوڑیں گے اور سامنے آکر جدید ہتھیاروں سے لڑیں گے۔ غزہ کی حالیہ جنگ میں تین دن کا جو وقفہ آیا تھا اس کے ختم ہونے پہ لڑاءی پھر شروع ہوگءی ہے۔ شاید اسراءیلی قیادت کی یہ سوچ ہے کہ لڑاءی جس قدر دیر تک جاری رہے، اس قدر زیادہ فلسطینی اپنےخراب حالات سے تنگ آکر حماس سے بددل ہوں گے؛ اسراءیل کو اتنی تیزی سے ایسے فلسطینی جاسوس میسر آسکیں گے جو حماس کی قیادت اور اس کے ہتھیاروں کے بارے میں اسراءیل کو اطلاع فراہم کریں اور اسراءیل کے لیے مزاحمت کاروں کو مکمل طور سے ختم کرنا آسان ہوجاءے۔ دوسری طرف شاید حماس کی یہ سوچ ہے کہ جنگ دیر تک جاری رہنے سے اسراءیل دنیا میں سیاسی طور پہ اکیلا ہوتا جاءے گا اور دنیا والے آنکھیں دکھا کر اسراءیل کو فلسطینیوں سے مذاکرات کرنے پہ مجبور کریں گے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں سیاست اور عسکریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ صرف حماس کو یہ معلوم ہے کہ ان کے پاس راکٹوں کی کتنی کھیپ بچی ہے، اور اب جب کہ اسراءیل نے ان کی زیادہ تر سرنگیں تباہ کردی ہیں، وہ غزہ میں پہلے سے لاءے گءے راکٹوں اور ہتھیاروں کی مدد سے کتنی دیر تک اسراءیل کو اس جنگ میں کھینچ پاءیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت جنگ اسراءیل کے حق میں جارہی ہے۔ دنیا جو ہر دم تازہ خبر کی تلاش میں رہتی ہے اس باسی جنگ سے توجہ ہٹاتی جارہی ہے اور اسراءیل کے لیے حماس کو مکمل طور سے کچلنا آسان ہوتا جارہا ہے۔
جہاں ایک طرف اسراءیل کی غزہ پہ بمباری جاری ہے وہیں دوسری طرف مشرق وسطی میں ایک اور جگہ بمباری شروع ہوچکی ہے۔ امریکہ نے عرق اور شام کے چند علاقوں میں بننے والی خلافت، دولت اسلامیہ، کے فوجی ٹھکانوں پہ بمباری کی ہے۔ گو کہ کسی بھی امن پسند شخص کے لیے کسی بھی جنگی کارواءی کی حمایت کرنا مشکل کام ہے مگر یہ نءی 'خلافت' جس طرح لوگوں کا قتل عام کررہی تھی اور اس کے جنگجو جس طرح خلافت کی حدود طاقت کے زور پہ بڑھا رہے تھے، یہ دیکھتے ہوءے ان ظالموں کا ہاتھ پکڑنا ضروری ہوگیا تھا۔ اس معاملے میں یہ بات غور طلب ہے کہ کسی مسلمان ملک میں نہ تو اتنی دوراندیشی ہے کہ وہ دیکھے کہ دور اٹھنے والے طوفان مستقبل میں اس کو کس طرح کا نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور نہ اتنی طاقت کہ وہ اس طوفان کو روکنے کے لیے کوءی عملی کارواءی کرے۔ اس خطے میں موجود مسلمان ممالک تشویش سے شمالی عراق میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کو دیکھ رہے تھے؛ وہ دیکھ رہے تھے کہ کچے پکے سیاسی خیالات والے لوگوں نے اس علاقے میں خلافت کے نام پہ اپنی حکومت قاءم کرلی تھی اور بہت سے ممالک سے گمراہ نوجوان اس نءی خلافت کی طرف جارہے تھے۔ مگر اپنی تمام تر تشویش کے باوجود کسی مسلمان ملک نے گمراہ 'خلافت' کے ظالموں کو روکنے کے لیے کوءی عملی کام نہیں کیا۔ لے دے کر پھر وہی امریکہ ان کے کام آیا۔
'خلافت' کے جنگجوءوں پہ امریکی حملے کو ایک اور زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت جب غزہ میں جنگ جاری ہے، امریکہ کی یہ تازہ کارواءی یہ عالمی تاثر پیدا کرسکتی ہے کہ مسلمان دیوانے ہوتے ہیں اور ان کو 'ٹھیک' کرنے کے لیے ان پہ بم برسانا ضروری ہے۔ مسلمان ممالک سے باہر، بہت سے نادان ذہن جو امریکہ کی اخلاقی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں، کہیں یہ خیال نہ کریں کہ اگر امریکہ کا شمالی عراق میں مسلمان جنگجوءوں پہ بم برسانا درست ہے تو یقینا اسراءیل کا غزہ کے مسلمانوں پہ بم برسانا بھی ٹھیک ہی ہوگا؟

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?