Tuesday, August 26, 2014

 

گروہوں کا مان


اگست تین،  دو ہزار چودہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو


گروہوں کا مان




"یہ ویلینسیا تھانا؟ ویلینسیا؟" ایک عورت نے میرا بازو ہلا کر مجھ سے پوچھا۔ میں کیتو میں مارا مارا پھرتا تھک گیا تو کافی پینے کے لیے ایک قہوہ خانے میں ٹہرا تھا۔ وہاں ٹی وی پہ ورلڈ کپ کا میچ لگا ہوا تھا۔  ایکوادور کا مقابلہ اوندورس سے تھا۔ اسی لمحے ایکوادور کے کھلاڑیوں نے گول کرنے کی ایک زبردست کوشش کی تھی اور اوندورس پہ گول ہوتے ہوتے بچا تھا۔ ایکوادور کے جس کھلاڑی نے گیند کو گول میں پھینکنے کی کوشش کی تھی، اسی کی شناخت مجھ سے معلوم کی جارہی تھی۔ میں نے ایک سادہ 'نو سے' [مجھے نہیں معلوم] سے اپنا کام چلایا۔ مگر میں ایکوادور کے افریقی نژاد کھلاڑی انتونیو ویلینسیا کے متعلق سوچتا رہا کہ اس عورت کو ویلینسیا سے اتنی امید کیوں تھی۔ انتونیو ویلینسیا اپنے بے مثال کھیل کی وجہ سے ایکوادو میں دیوتا کی سی حیثیت رکھتا ہے۔
لوگ نہ جانے کیوں اپنی موروثی شناخت پہ فخر کرتے ہیں۔ دوسرے ان کو شناخت کے کسی خاص خانے میں ڈالتے ہیں، اور یہ اس خانے کی شناخت کو فخر سے اپنی پہچان بناتے ہیں۔ وہ جس لسانی، مذہبی گروہ میں پیدا ہوءے ہوتے ہیں، اس کی بڑاءی کرتے نہیں تھکتے۔ اور مانگے کی اس شناخت میں سب سے مضحکہ خیز شناخت 'قوم' کے تصور سے وابستہ ہے۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق فلاں قوم سے ہے تو وہ اس بات کو مان جاتے ہیں اور پھر اپنی 'قومی شناخت' پہ مرنے مارنے پہ تیار ہوجاتے ہیں۔ قوم پرستی کا واحد نمونہ جو مجھے قابل قبول ہے وہ کھیلوں کے مقابلے میں نظر آتا ہے۔  کھیلوں کے مقابلے مجھے یوں بھی پسند ہیں کہ ان مقابلوں میں جتنی زندگی نظر آتی ہے اتنی تڑپ لوگوں کی عام زندگی میں نظر نہیں آتی۔ وہ ایک لمحہ جب ایک ٹیم کے کھلاڑی مخالف ٹیم  کے کھلاڑیوں کو پچھاڑتے ہوءے مخالف ٹیم کے گول کے قریب پہنچتے ہیں۔ پھر جب داءیں یا باءیں جانب سے فٹ بال کو زور سے گول کی طرف پھینکا جاتا ہے۔ اور پھر جارح ٹیم کے ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ٹانگ یا اس کے سر سے لگ کر فٹ بال گول میں چلی جاءے۔ اور دوسری طرف مدافع ٹیم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ فٹ بال کو روک کر اس خطرے کے علاقے سے باہر پھینک دے۔ میرے لیے وہ لمحہ ایک گہرے روحانی تجربے کا لمحہ ہوتا ہے۔  میری آنکھیں آنسوءوں سے بھر جاتی ہیں اور میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ اتنے سارے کھلاڑیوں کے بیچ میں زندگی کی اس تڑپ کو دیکھ کر میں خوشی سے جھوم جاتا ہوں۔ اور اس لمحے تماش بینوں کے چہرے بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ جو گیارہ کھلاڑی میدان میں اترتے ہیں یہ اپنی قوم کا مان ہوتے ہیں۔ لوگ ان کھلاڑیوں سے اپنی عزت جوڑ لیتے ہیں۔ ان کی جیت میں قوم کی جیت ہوتی ہے۔ جو قومیں معاشی اور دوسرے میدانوں میں جتنی پٹی ہوءی ہوتی ہیں، اتنی ہی زیادہ امیدیں وہ اپنی قومی ٹیم سے رکھتی ہیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ ان کے یہ چنیدہ گیارہ بچے اپنی جیت سے قوم کی شکست کے دوسرے زخموں پہ کچھ دیر کے لیے مرہم رکھ دیں گے۔


Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?