Sunday, August 24, 2014

 

سالتا سے


جولاءی بیس،  دو ہزار چودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  اٹھانوے


سالتا سے


 
غزہ میں جنگ جاری ہے اور ٹی وی پہ ہسپانوی میں اس متعلق خبر چلتی نظر آتی ہیں۔ سنہ اڑتالیس سے شروع ہونے والا یہ تنازعہ کیا اب کی بار کسی حل کی طرف بڑھ جاءے گا؟ اسراءیل کی تو خواہش ہوگی کہ کسی طرح فلسطینیوں کی طاقت مزاحمت کو مکمل طور سے کچل دیا جاءے اور وہ اپنی زمین چھوڑ کر کہیں چلے جاءیں۔ کسی زمانے میں فلسطینی یہ سمجھتے تھےکہ یورپ سے آنے والے نووارد ان کی زمین چھوڑ کر واپس یورپ پلٹ جاءیں گے، مگر اب تو بھاگتے چور کی لنگوٹی بھلی والی بات ہے۔ اگر غزہ ایک علاحدہ ملک کے طور پہ آزاد ہوجاءے تو شاید فلسطینی اس چھوٹی سی ریاست کی آزادی کو ہی بہت مانیں گے۔
میں جس علاقے میں سفر کررہا ہوں وہاں بھی یورپ سے آنے والے مقامی لوگوں سےمتصادم رہے ہیں۔ مگر بات پرانی ہے اور اب یہاں کے اکثر لوگوں میں یورپی اور مقامی خون خلط ملط ہے۔
میں لاپاز میں جس ہوٹل میں ٹہرا اس کو چلانے والی مینیجر مارتا یقینا خاتون آہن تھی۔ کسی زمانے میں اس کے بھرے ہوءے گالوں کا گوشت اب لٹکتا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ اپنی ماتحت خواتین پہ تمکنت سے حکومت کرتی تھی۔ "سینیوریتا، آپ گرم پانی سے کھیلنا چھوڑیں اور یہاں آکر میری بات سنیں،" میں نے پہلے دن ہی مارتا کو یہ بات استقبالیہ پہ موجود نوجوان لڑکی سے کہتے ہوءے سنی تھی، جب وہ لڑکی کچھ دیر کے لیے کاءونٹر چھوڑ کر برابر والے کمرے میں شاید کافی بنانے کی نیت سے گءی تھی۔ ایک دن جب میں نے مارتا سے کہا کہ ہمارے کمرے کی صفاءی تو ہوءی تھی مگر تولیے نہیں بدلے گءے تھے تو اس نے بات 'میرا، وواءی آ ایکسپلیکار' [دیکھو، میں تمھیں سمجھاتی ہوں] سے شروع کی۔ پھر اس نے تین انگلیاں میرے سامنے لہراتے ہوءے کہا کہ ،"تم تین ستارہ ہوٹل میں ٹہرے ہوءے ہو۔ اور جو باتیں تم کر رہے ہو وہ پانچ ستارہ ہوٹل کی ہیں۔ اسی طرح میرے پاس لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں ناشتے میں انڈہ چاہیے۔ انڈہ، یعنی ان کو انڈہ چاہیے۔ ان کو بھی میں یہی سمجھاتی ہوں کہ یہ تین ستارہ ہوٹل ہے۔ اگر تم پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹہرتے تو تم کم سے کم اسی-سو ڈالر روازانہ کے دیتے۔ اس رقم میں یہ کام کیا جاسکتا ہے کہ تمھیں روز نءے تولیے دیے جاءیں اور تلے ہوءے انڈے ناشتے میں ملیں۔ خود دیکھو کہ تم روز کا کتنا کرایہ دے رہے ہو۔" میں نے سہم کر اعتراف کیا تھا کہ وہ صحیح کہہ رہی تھی۔ میری نءے، صاف تولیے کی خواہش بے جا تھی۔ لاپاز میں آخری دن مارتا صبح کے ناشتے پہ نظر آءی۔ میں نے اس کی خیریت پوچھی تھی اور پوچھا تھا کہ اس قدر صبح وہ وہاں کیا کررہی تھی۔ اس نے اسی وقت شکایت کا دفتر میرے سامنے کھول دیا تھا۔ ناشتے کا انتظام کرنے والی ملازمہ اچانک غاءب ہوگءی تھِی، اور اس لیے مارتا کو اس ملازمہ کے حصے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ مارتا نے مقامی لوگوں کی شکایت کی کہ وہ کام بالکل نہیں کرنا چاہتے؛ تھوڑے سے پیسے بن جاءیں تو وہ بھاگ جاتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر مارتا ملازمین سے اپنا رویہ تھوڑا بہتر کرلے تو شاید وہ یہاں ٹک کر رہیں، مگر ساتھ یہ بھی خیال کیا کہ اگر یہ بات میری زبان سے نکلی تو وہ ایک لمبی چوڑی تقریر جھاڑ دے گی اور میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاءوں گا۔


Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?