Friday, August 22, 2014

 

کاغذ پہ کھنچی لکیریں


جون تیرہ سے اگست سترہ تک سفر میں رہا۔ اس درمیان اس بلاگ پہ تازہ مواد نہ ڈال سکا۔ البتہ ہفتہ وار کالم لکھنے کا کام جاری تھا۔ اب موقع ملا ہے تو پرانے کالم یہاں شاءع کررہا ہوں۔
 
جولاءی پانچ،  دو ہزار چودہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  چھیانوے


کاغذ پہ کھنچی لکیریں

 
سفر میں دو ممالک کی باہمی سرحد عبور کرنا دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے۔ میں ایکوادور کے جنوب میں کوءنکا نامی شہر میں تھا۔ وہاں سے پے رو کی سرحد بہت زیادہ دور نہ تھی مگر اس سرحد کے عبور کرنے کے تجربے پہ مسافروں نے جو کچھ انٹرنیٹ پہ لکھا تھا وہ بہت خوشگوار نہ تھا۔ اس سفر میں سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل بارہ چودہ گھنٹے کا بس کا سفر تھا۔ یہ تکالیف اس سرحدی پوسٹ سے متعلق تحریر تھیں جو پہاڑوں پہ واقع تھی۔ میں نے بہت سوچا اور پھر اس راستے سے سرحد عبور کرنے کا خیال ترک کردیا۔ میں نے کوءنکا سے مغرب کی طرف سفر کرتے ہوءے ساحل سمندر تک  جانا اور پھر وہاں سرحد پار کرکے پے رو میں داخل ہونا زیادہ بہتر خیال کیا۔
جس صبح میں نے کوءنکا کو چھوڑا، پورے شہر پہ بادل چھاءے ہوءے تھے اور وقفے وقفے سے بونداباندی ہورہی تھی۔ کوءنکا سے اوواکیا کا ٹکٹ میں نے ایک دن پہلے ہی خرید لیا تھا۔ اوواکیا پے رو کی سرحد کے ساتھ ایکوادور کا آخری قصبہ ہے؛ یہ ایکوادور کے بالکل جنوب مغرب میں واقع ہے۔ کوءنکا ایندیز کی تراءی میں ہونے کی وجہ سے اونچاءی پہ ہے۔ خط استوا سے محض دو درجہ جنوب میں ہونے کے باوجود وہاں کی آب و ہوا خوشگوار تھی۔ وہاں سے اوواکیا کا سفر مستقل اتراءی کا سفر تھا۔ اوواکیا جانے والی بس بہت دیر تک دریا کے ساتھ چلتی رہی اور پھر تیزی سے نیچے اترنا شروع ہوءی۔ بس کا ڈراءیور بہت چٹورا تھا۔ اس نے بس جہاں روکی وہاں سے کچھ نہ کچھ کھانے کی چیز ضرور لی۔ ایک جگہ رک کر انگور کھاءے، ایک جگہ سے مرغی چاول لیے، اور پھر تیسری جگہ سے آءسکریم۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر یہ شخص اسی طرح کھاتا رہا اور ساتھ گھنٹوں گاڑی چلاتا رہا تو کچھ ہی سالوں میں یہ پھول کر کپا ہوجاءے گا۔
بس جب پساہے نامی قصبے میں پہنچی تو ہم پہاڑ اتر کر سطح سمندر کے بہت قریب آگءے تھے۔ اب ہمیں میلوں تک کیلے کے باغات نظر آءے۔ ایکوادور کے کیلے امریکہ میں افراط سے نظر آتے ہیں۔
بس اوواکیا میں داخل ہوءی تو شام کے پانچ بجے تھے۔ ایک چوراہے پہ بس کے مسافر اترنا شروع ہوءے۔ میں نے ڈراءیور سے سرحد کے متعلق پوچھا تو اس نے سامنے کی طرف اشارہ کردیا۔ وہاں سڑک پہ بہت رش تھا اور بڑی تعداد میں لوگ چلتے نظر آرہے تھے۔ آثار بتا رہے تھے کہ سرحد جانے کا راستہ وہی تھا۔ میں وہیں اتر گیا۔ وہ سڑک آگے جا کر صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہوگءی۔ دونوں طرف ٹھیلے لگے تھے جس کے بیچ میں موجود پتلے سے راستے سے لوگ آجا رہے تھے۔ راستہ آگے جا کر ایک چوراہے پہ ختم ہوا۔ وہاں ایک بڑا ساءن نظر آیا جس پہ ایکوادور کی طرف سے شکریہ تحریر تھا کہ ہم نے ایکوادور کا دورہ کیا۔ تھوڑا آگے ایک ساءن بورڈ پے رو میں داخلے پہ خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ میں مطمءن تھا کہ صحیح راستے پہ جارہا تھا۔ سڑک کے ساتھ ہی سیاحتی پولیس کا ایک کھوکھا نظر آیا۔ اندر ایک بیزار چہرہ افسر بیٹھا تھا۔ اس سے پوچھا کہ آیا پے رو کے داخلے کے لیے میں صحیح راستے پہ تھا۔ اس نے بتایا کہ راستہ تو صحیح تھا مگر پے رو میں داخلے سے پہلے مجھے ایکوادور سے خروج کی مہر اپنے پاسپورٹ میں درکار تھی اور یہ مہر جس دفتر میں لگنا تھی وہ کچھ فاصلے پہ واقع تھا۔ اس دفتر سے ٹیکسی سے جایا جاسکتا تھا۔ اس نے ایک پرچے پہ اس دفتر کا نام لکھ دیا جہاں جا کر مجھے خروج کی مہر لگوانی تھی۔ پولیس چوکی کے باہر ہی قطار سے ٹیکسیاں کھڑی تھیں۔ ایک ٹیکسی والے کو پرچی دکھاءی، وہ چلنے پہ راضی ہوگیا۔ ہم اسی رخ پہ چلے جس رخ سے شہر کے اندر داخل ہوءے تھے۔ پھر ہم شہر سے باہر نکل آءے۔ اب ہم جس سرحدی چوکی پہ پہنچے وہ ویران تھی اور اس گہما گہمی سے بہت پرے تھی جو اوواکیا سے لگنے والی سرحد کے پاس نظر آءی تھی۔ اس سرحدی چوکی کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ یہاں ایکوادور اور پے رو کے امیگریشن کاءونٹر ساتھ ساتھ موجود تھے۔ ایک کاءونٹر سے خروج کی مہر لگواءیں اور دوسرے سے داخلے کی۔ وہاں سے کاغذی کارواءی کر کے باہر نکلا تو ایک ساءن پہ پے رو کے مختلف شہروں تک جانے کے ٹیکسی کے کراءے لکھے تھے۔ وہیں موجود ایک ٹیکسی والے نے ہمیں راضی کرلیا کہ ہم سرحدی چوکی سے پے رو کے قصبے تمبیس تک اس کے ساتھ چلیں۔
بہت سے ممالک کی باہمی سرحد کسی جغرافیاءی رکاوٹ سے بنتی ہے؛ وہاں کوءی دریا، کوءی ندی، کوءی پہاڑ قدرتی سرحد کا کام کرتا ہے۔ ایکوادور اور پے رو کے درمیان ایسا کچھ نہ تھا اور واضح تھا کہ یہ ایک مصنوعی سرحد تھی جو کسی دفتر میں بیٹھ کر نقشے پہ کھینچی گءی تھی۔
 جب ہم تمبیس پہنچے تو رات ہوچلی تھی۔ پے رو کو دن کی روشنی میں غور سے دیکھنے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اگلے دن کا انتظار کرنا تھا۔



Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?