Thursday, August 21, 2014

 

کوتوپاکسی


جون اٹھاءیس،  دو ہزار چودہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  پچانوے


کوتوپاکسی



اس دفعہ پھر ٹرین چلنے سے پہلے وکتور نے تمام مسافروں کو تاکید کی کہ وہ اپنی اپنی نشستوں پہ بیٹھ جاءیں۔ وکتور، ہم سیاحوں کی ٹولی کا رہبر، دراز قد نوجوان تھا جس کے لمبوترے بھرے چہرے پہ چوکور فریم کا سیاہ چشمہ خوب سجتا تھا؛ وکتور کے چہرے پہ سنجیدگی چھاءی رہتی تھی۔ میں وکتور کی انسان دوستی کا تو اسی وقت قاءل ہوگیا تھا جب ایل بولیچے پہنچنے پہ میں نے اس سے کہا تھا کہ مجھے سردی لگ رہی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا کسی جگہ سے مجھے ایک جیکٹ تھوڑی دیر کے لیے کراءے پہ مل سکتی تھی۔ وکتور نے اسی وقت اپنی جیکٹ اتارنی شروع کی۔ دراصل وہ ایک کے اوپر دوسری جیکٹ پہنا ہوا تھا۔ اس نے ایک جیکٹ اتار کر مجھے دے دی کہ اسے میں پہن لوں۔ میں نے اس کا  بہت شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھ لیا کہ کہیں اسے سردی تو نہیں لگے گی۔ اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ بہت آرام محسوس کررہا تھا۔
کوتوپاکسی ایکوادور کے درالحکومت کیتو کے قریب ایک آتش فشاں ہے۔  کوتوپاکسی کو دیکھ کر اس آءسکریم کا خیال آتا ہے جسے بیکڈ الاسکا کہتے ہیں۔ یہاں معاملہ بیکڈ الاسکا کا الٹ تھا، یعنی باہر برف اور اندر گرمی۔ یہ الگ بات ہے کہ کوتوپاکسی ایک طویل عرصے سے خاموش ہے۔ اسی خاموشی کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے لوگ کوتوپاکسی کی چوٹی سر بھی کرتے ہیں۔ مجھے کیتو ہی میں سردی محسوس ہورہی تھی اس لیے میں مزید ٹھنڈک کی طرف نہیں جانا چاہتا تھا مگر کوتوپاکسی کو دیکھنے کی خواہش پھر بھی تھی۔ جن دنوں مطلع صاف ہوتا ہے، کوتوپاکسی کی برف پوش چوٹی کیتو ہی سے نظر آتی ہے۔ مگر میرے کیتو پہنچنا پہ ایسا نہ تھا۔ اور میں کوتوپاکسی دیکھے بغیر کیتو سے روانہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔

کیونکہ ایکوادور کا بڑا علاقہ پہاڑوں پہ واقع ہے اس لیے وہاں ریل کی پٹری بچھانا مشکل کام تھا۔ مگر بہت محنت سے یہ کام ہو ہی گیا۔ مگر ایکوادور کی ٹرین محض سیاحوں کی تفریح کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر کیتو سے کوتوپاکسی نظر نہ بھی آءے تو کیتو سے باہر ایل بولیچے پارک سے اس نظارے کا زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس پارک کو کوتوپاکسی کی منظرگاہ خیال کیا جاتا ہے۔  کیتو سے  ایل بولیچے پارک جانے والی ٹرین کے تمام مسافر سیاحت کے شوق ہی میں ایل بولیچے جارہے تھے۔
خط استوا پہ موسم ایک جیسا رہتا ہے؛ جو علاقے خط استوا پہ ہیں اور ساتھ ہی سطح سمندر پہ بھی وہاں سارا سال موسم گرم رہتا ہے مثلا سنگاپور میں۔ مگر کیتو میں ایسا نہیں ہے۔ کیتو ایندیز پہاڑ کی تراءی میں واقع ہے اور اونچاءی کی وجہ سے وہاں سردی تھی۔
خیال تھا کہ ایل بولیچے پہنچ کر کوتوپاکسی نظر آجاءے گا، مگر ایسا نہ ہوا۔ مستقل بادل چھاءے رہے اور ہم سب مایوس ہوگءے کہ ہمیں کوتوپاکسی کو دیکھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ٹرین کیتو واپسی کے لیے پلٹ گءی۔ مگر جب ٹرین راستے میں ایک اسٹیشن پہ ٹہری تو اچانک بادل چھٹے اور کوتوپاکسی اپنی تمام وجاہت کے ساتھ نمودار ہوگیا۔ سیاحوں کے دلوں کی مراد پوری ہوءی۔ ہر طرف کڑک کڑک کیمرے چلے اور ڈھیر ساری تصویریں لی گءیں۔
ایل بولیچے میں پارک کی سیر کے دوران وکتور نے سیاحوں کو قیشار درخت دکھایا تھا۔ 'دیکھو، یہ ہے اس جگہ کا اصل درخت۔ یہ درخت بہت آہستہ اگتا ہے۔ اسی لیے نوآبادیاتی دور میں اس درخت کی جگہ صنوبر کے درختوں کو اہمیت دی گءی۔ یہاں صنوبر کیلی فورنیا سے لاءے گءے تھے۔ مگر اب ہم یہاں سے صنوبر کو ختم کر کے واپس قیشار کو لانا چاہتے ہیں۔' میں نے سوچا کہ واپس لوٹ جانے کے اس عمل  کے مختلف  طریقے دیکھنے میں آتے ہیں۔ وہ مقامی آبادی جسے نوآبادیاتی دور میں مارپیٹ کر، اور وحشی کہہ کر ایک کنارے لگا دیا گیا تھا، اب انہیں مقامی/زمین کے اصل لوگوں کے حقوق کی بات بھی ہوتی ہے۔


Labels: , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?