Saturday, June 14, 2014

 

باپ کا دن اور باتیں بچپن کی


جون آٹھ،  دو ہزار چودہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو  بانوے
باپ کا دن اور باتیں بچپن کی
 
لکھنے بیٹھا تھا مقدس رشتوں سے متعلق کالم ؛ اچانک خبر آءی کراچی ہواءی اڈے پہ حملے کی۔ اسی خبر کو کھنگالنے اور تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کے عمل میں کچھ وقت نکل گیا۔ شرپسند عناصر چاہتے ہیں کہ ہم مستقل ان کی طرف توجہ کیے رکھیں۔ مگر میں ایسا کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ جن چیزوں پہ میرا بس نہیں چلتا ان کی طرف بس تھوڑی ہی توجہ کرسکتا ہوں۔

ایک وقت تھا کہ مجھے 'ماں کا دن' اور 'باپ کا دن' منانے پہ اعتراض تھا۔ میں سوچتا تھا کہ جس طرح ہم کوءی ایک دن 'کھانا کھانے کا دن' یا 'پانی پینے کا دن' متعین نہیں کرتے، اس طرح ان خاص رشتوں کے لیے صرف ایک دن کی قید کیوں؟ مجھے شک ہوتا تھا کہ 'ماں کے دن' اور 'باپ کے دن' کی عالمی طور پہ ترویج کے پیچھے کاروباری دنیا کی یہ ہوس کارفرما ہے کہ ان کی چیزیں بکیں اور ان کا کاروبار چمکے۔ پھر ماں اور باپ کے دن کے ساتھ محبت کا دن بھی منایا جانے لگا۔ ہمارے اپنے لوگ جو اب تک ماں اور باپ کے دن منانے پہ خاموش بیٹھے تھے، محبت کے نام پہ چونکے۔ محبت؛ یہ کیسی فضول بات ہے۔ وہ پتھر لے کر کھڑے ہوءے اور انہوں نے سب کو دھمکی دی کہ اگر کسی نے محبت کا دن منایا تو اس کی ایسی درگت بناءی جاءے گی کہ وہ یاد رکھے گا۔ محبت اور اخلاقیات کے ان ٹھیکے داروں نے محبت کے دن کے بجاءے 'یوم حیا' منانے کا فیصلہ کیا۔ اس 'یوم حیا' کا سارا دھونس دھڑپا عورتوں پہ ہے۔ وہ عورتیں جو عام دنوں میں حجاب اور چادر کے ساتھ چلتی ہیں، اب یوم حیا پہ ڈبل برقعہ پہنیں گی۔
واپس موضوع کی طرف آتے ہیں، یعنی 'باپ کے دن' کے معاملے پہ۔ اپنے تحفظات کو ایک طرف رکھ کر جب میں نے اس بارے میں غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ بہت سے لوگ تو ہر روز ماں اور باپ کا دن مناتے ہیں، مگر یقینا چند نادان ایسے بھی ہوں گے جو اس تیز رفتار زندگی میں اپنے والدین کو بھول جاتے ہوں گے۔ شاید اوروں کی دیکھا دیکھی،ماں اور باپ کے دنوں پہ، ان مصروف لوگوں کو بھی ان مقدس رشتوں کو یاد کرنے کا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرنے کا خیال آجاتا ہو۔
'باپ کا دن'  اتوار پندرہ جون کو منایا جاءے گا۔ اسی  نسبت سے 'راستہ جو منزل ہے' نامی ناول سے ایک اقتباس حاضر ہے۔
اور احسان ایک باپ کا بھی ہے جس نے بہت محنت کی ہے۔ اس نے زمین جوتی، درخت لگاءے، سال در سال ان درختوں کو پانی دیا اور اب ہم ان درختوں کے پھل کھا رہے ہیں۔ اس نے کچھ نہ ہونے سے شروع کیا اور اپنی محنت و لیاقت سے بہت کچھ بنا لیا۔ اس نے اپنی جوانی سخت محنت میں گزار دی۔ اور اسی قربان جوانی کے دم سے ہم لوگ غربت کے ظالم داءرے سے ایک قدم باہر ہیں اور اپنے مستقبل کے لیے آزادانہ فیصلے کرسکتے ہیں۔
میں نے ایک نہایت خوشگوار بچپن گزارا ہے۔ میرے ارد گرد ایک مجمع تھا مجھ پہ محبتیں نچھاور کرنے والوں کا۔ میں ان تمام لوگوں میں اپنے پھوپھا کا خاص طور پہ قاءل ہوں۔ ان کے احسانات سے متعلق ایک تحریر حاضر خدمت ہے۔
کچھ کچھ دنوں بعد مجھے فرصت کے ایسے دن میسر آتے ہیں جب مجھے اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ادوار کو جانچنے کا موقع ملتا ہے۔ زندگی کے گزرے ہوئے ادوار: وہ صفحات جن پر کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی امتحان، کبھی آزمائش، کبھی کامیابی، کبھی ناکامی رقم ہے۔ میری زندگی کے اُن ہی اوراق میں کچھ صفحات ایسے ہیں جن پر بچپن لکھا ہے ۔ اُن اوراق پر جگہ جگہ ربڑیوں اور بامبے بیکری کے کیک کا ذکر ہے۔
یادوں کا یہ سلسلہ ستر کی دہاءی سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے پھوپھا اور پھوپھی بیراج کالونی، حیدرآباد میں رہتے تھے۔ پھوپھا، سید محمد یونس، محکمہ آب پاشی میں کام کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کو کوٹری بیراج کے قریب قاءم کی جانے والی بیراج کالونی میں رہنے کے لیے مکان ملا ہوا تھا۔ ہر چھٹیوں میں ہمارا حیدرآباد جانا ہوتا تھا اور سپرہاءی وے بننے کے بعد اس سفر میں آسانی ہوگءی تھی۔ بیراج کالونی کے اسی گھر سے بچپن کی بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ چوبی دروازے سے دالان میں داخل ہوں تو باءیں ہاتھ پہ پہلے بیت الخلا، پھر غسلخانہ، اور پھر باورچی خانہ تھا۔ سامنے دو کمرے تھے۔
حیدرآباد میں کراچی سے زیادہ سردی پڑتی تھی اور سردیوں میں سر میں لگانے کا تیل بوتل میں جم جاتا تھا۔ دن چڑھنے کے ساتھ سورج کی پہلی کرنیں باورچی خانے کی دیوار پہ پڑتیں اور کالا کولا کی بوتل اپنے جم جانے والے تیل کے ساتھ اسی کونے میں تیل ٹگھلانے کے لیے رکھی جاتی۔
بیراج کالونی میں جگہ جگہ نیم کے گھنے درخت لگے تھے۔ اُن درختوں کو پانی دینے کے طریقے میں جدت تھی۔ گھروں کا استعمال شدہ پانی ہر گھر کے باہر نالیوں اور ہودی میں جمع ہو جاتا۔ پھر ایک ٹرک آتا جو اپنا پائپ ٹینک میں ڈالتا اور ٹینک کا سارا پانی چوس لیتا۔ یہی ٹرک ہر درخت تک جاتا اور جمع شدہ پانی ہر درخت کے اطراف بھر دیتا۔ ہم بچے اس پورے عمل کو روزانہ بہت غور سے دیکھتے۔
پھوپھا کا خیال تھا کہ وہ ریٹاءرمنٹ کے بعد کراچی آکر رہیں گے۔ اسی نیت سے انہوں نے اپنا ایک گھر ہمارے گھر کے قریب دستگیر کالونی میں بنایا۔ کچھ عرصہ تو وہ گھر کراءے پہ رہا؛ پھر ریٹاءرمنٹ کی تیاری میں پھوپھا کا خاندان اس گھر میں منتقل ہوگیا۔ پھوپھا کا مستقل حیدرآباد جانا ہوتا۔
اور جب کبھی پھوپھا حیدرآباد سے واپس کراچی آتے تو ہم سے محبت میں ہمارے لیے بامبے بیکری کا کیک یا حافظ کی ربڑی اور بعض اوقات دونوں چیزیں ضرور لاتے۔ بامبے بیکری کا وہ مزے دار چاکلیٹ کیک جس کے ڈبے پر بغیر کسی تزءین کے نہایت سادگی سے انگریزی میں بامبے بیکری لکھا ہوتا ہے۔ بامبے بیکری کا کیک ہوتا بھی ایسا عمدہ ہے کہ بیکری والوں کو کیک کی شان بڑھانے کے لیے ڈبے پہ کسی قسم کے نقش و نگار کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اسی قسم کی عاجزی حافظ کی ربڑی میں بھی ہوتی۔ ربڑی مٹی کے کلھڑ میں ہوتی۔ کلھڑ کو بند کرنے کے لیے کلھڑ کے منہ پر اخبار کے صفحات رکھ کر منہہ کو سُتلی سے باندھ دیا جاتا ۔ اور اُسی سُتلی سے ایسا آنکڑا بنایا جاتا جس سے آپ کلھڑ کو اٹھا سکتے تھے۔ میں کوسوں دور بیٹھا، کئی سالوں کے فاصلے سے ، آج بھی ا اُس لچھے دار ربڑی کو دیکھ سکتا ہوں، سونگھ سکتا ہوں، اور چکھ سکتا ہوں۔ ربڑی کے کلھڑ میں لچھے دار ربڑی کے ایک طرف ربڑی کا دودھیا رس جمع ہو جاتا۔ میں خاص اہتمام سے چمچے سے وہ مزے دار شیریں رس نکال کر پیتا۔
بامبے بیکری کے کیک اور ربڑی کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو میری زندگی کے ایک لمبے عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ ہزاروں ربڑیاں اور ہزاروں بامبے بیکری کے کیک، اُن کا حساب کرنا محال ہے۔  اُن مستقل تحاءف سے پیوستہ احسان میٹھی خوشگوار یادیں دینے کا احسان ہے۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کرسکتا ہوں کہ مجھے بچپن میں محبت کے ایک حصار نے مستقل اپنی حفاظت میں رکھا اور مجھے عمر کے اس حصے میں صرف میٹھی خوشگوار یادیں ملیں۔ میں کوءی ایسا کام نہیں کرسکتا، کوءی ایسا تیر نہیں مارسکتا جس سے اپنے پھوپھا، اپنے چچا، اور اپنے باپ کے برابر کے ان دوسرے بزرگوں کے احسانات چکا سکوں۔ میں نے اپنے چچا کو اپنے بچپن سے اب تک، عمر کے مختلف ادوار میں جس طرح دیکھا، اور جس طرح ان کا مہربان سایہ مستقل میرے اوپر رہا، اس متعلق بھی ایک مضمون لکھ رہا ہوں جو جلد آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?