Tuesday, June 03, 2014
پاکستان میں سول-فوج تعلقات کا شوشہ
جون ایک، دو ہزار چودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اکیانوے
پاکستان میں
سول-فوج تعلقات کا شوشہ
پاکستان ایک
نیا ملک ہے۔ پاکستان اپنی موجودہ شکل میں سنہ ۷۱ میں وجود میں آیا۔ سنہ ۷۱ سے پہلے
کا پاکستان ایک اور ملک تھا، وہاں سیاست کا ایک رنگ تھا؛ آج کا پاکستان ایک دوسرا
ہی ملک ہے جہاں سیاست کا رنگ بالکل جدا ہے۔
سنہ ۷۱ سے پہلے کے پاکستان میں ایک بہت بڑے خطے، بنگال، کی فوج میں
نماءندگی براءے نام تھی۔ یہ خیال کہ مغربی پاکستانیوں کے مقابلے میں مشرقی
پاکستانی بہت جمہوریت پسند تھے صحیح نہیں ہے۔
بنگالی اتنے ہی جمہوریت پسند ہیں جتنے جنوبی ایشیا کے رہنے والے دوسرے
گروہ۔ اگر سنہ ۷۱ سے پہلے کے پاکستان میں بنگالی، فوجی حکومت کے خلاف تھے تو اس کی
بڑی وجہ یہ تھی کہ بنگالی، پاکستانی فوج کو مغربی پاکستان کی فوج سمجھتے تھے۔ کسی
بھی دوسرے گروہ کی طرح بنگالی ایک ایسی حکومت کے ماتحت نہیں رہنا چاہتے تھے جس میں
ان کی نماءندگی نہ ہو۔ بنگالی اگر جمہوریت کے اتنے ہی دلدادہ ہوتے تو اپنے ملک میں
کبھی مارشل لا نہ لگنے دیتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد وہاں
دھڑلے سے مارشل لا بھی لگا اور لوگوں نے بہت آرام سے اپنی فوجی حکومت کو برداشت
بھی کیا۔ اور بنگالیوں نے سنہ ۷۱ کے بعد فوجی حکومت کو اس لیے برداشت کیا کہ
کیوںکہ وہ فوجی ان کے اپنے یعنی بنگالی تھے۔
اور یہی بات
سمجھنے کی ہے۔ کوءی بھی فوجی حکومت عوامی مقبولیت میں جمہوری حکومت کا مقابلہ اس لیے نہیں کرسکتی کہ
فوج مساوی طور پہ پورے ملک کی نماءندہ فوج نہیں ہوتی۔ اور یہی بات نہ صرف فوجی
حکومت کے خلاف جاتی ہے بلکہ اسی وجہ سے ہردفعہ فوجی حکومت کے برسراقتدار آنے سے
ملک سیاسی طور پہ کمزور ہوتا ہے؛ وہ خطے جن کی نماءندگی فوج میں نہیں ہوتی اس
سیاسی صورتحال میں بے بسی محسوس کرتے ہیں اور وہاں اس غیرنماءندہ حکومت سے آزادی
کی خواہش جنم لیتی ہے۔
میرے آس پاس
ایسے لوگ ہیں جو مجھے پرفریب اعداد و شمار اور گراف دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش
کرتے ہیں کہ فوجی حکومتوں کے دور میں پاکستان نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی
ہے۔ اول تو ترقی کے ان اعداد وشمار پر ہی سوالیہ نشانات لگے ہیں، لیکن اگر ان پہ
کسی طرح آنکھ بند کر کے یقین بھی کرلیا جاءے تو مدعی سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ
فوجی حکومتوں کے کارناموں کے ان ثبوت میں ملک کے بتدریج کمزور ہونے کا ثبوت بھی
شامل کرلو۔ جو لوگ معاشی ترقی کے ان 'اعداد وشمار' سے متاثر ہیں انہیں یقینا جنوبی
افریقہ کی معیشت کے وہ اعدادوشمار بھی پسند آءیں گے جو اس دور کے ہیں جب جنوبی
افریقہ پوری طرح نسل پرستی کی ڈگر پہ چل رہا تھا۔ یقینا اس دور کا جنوبی افریقہ
عوام کے خاص طبقے کے لیے بہت حیسن تھا اور مغربی دنیا میں بھی اس کی بہت پذیراءی
تھی مگر اس دور کا جنوبی افریقہ اپنی نسل پرستی کی وجہ سے سیاسی طور پہ ایک کمزور
ملک تھا جسے جلد یا بدیر ختم ہونا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ثابت ہوا کہ معاشی
اعداد وشمار اصل تصویر کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک ہی دکھاتے ہیں۔ اصل کہانی ان
اعداد وشمار سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی ہے۔
اگر کبھی
پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کی مذمت کی جاءے تو ایسے نادان لوگ سامنے آتے ہیں
جو فوج کے سیاسی کردار کی مذمت کو فوج کی مذمت خیال کرتے ہیں۔ انہیں کون سمجھاءے
کہ فوج کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔ اگر نکتہ چینی کی جارہی ہے تو فوج کی اس قیادت
پہ جسے گاہے گاہے خیال آتا ہے کہ ملک چلانے کی اصل ذمہ داری اس کے اوپر ہے اور اسی
ذمہ داری کے تحت اسے فیصلہ کرنا ہے کہ کوءی جمہوری قیادت ملک صحیح چلا رہی ہے یا
نہیں۔
پھر ایک فراڈ
یہ بھی ہے کہ فوج کی سیاسی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاءے تو وہ لوگ جو فوج
کے کندھوں پہ سوار اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں ہمیں فوج کی بیش قدر
قربانیاں یاد دلاتے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ گویا راشد منہاس اور عزیز
بھٹی کی قربانی یاد دلا کر باور کرایا جارہا ہے کہ ایوب خان، ضیاالحق، اور پرویز
مشرف کا اقتدار پہ قبضہ کرنا بالکل ٹھیک تھا۔
پاکستانی فوج
میں وہ نظم و ضبط ابھی تک موجود ہے جو دراصل انگریز کی دین ہے۔ اس فوج کا جوان، جو
ہمارے آپ کے بچوں جیسا ہے، اپنے افسر کے حکم پہ محاذ پہ جاتا ہے اور لڑتا ہوا شہید
بھی ہوتا ہے۔ ان جوانوں کی قربانیوں کی وجہ ہی سے آج طالبان کے مختلف دھڑے ایک
دوسرے سے الگ ہورہے ہیں اور ان میں سے کءی حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ فوج
کے اس جوان کو قوم کا سلام۔
اپنے سے اوپر
افسر کے حکم کو بلا چوں چرا ماننے کا یہ سلسلہ کپتان، میجر، کرنل، بریگیڈءیرسے
ہوتا ہوا جرنیل تک پہنچتا ہے۔ جرنیل کی سطح پہ ہوا کچھ بدلتی ہے۔ اس سطح پہ پہنچنے
والے فوجی صلاحیت میں ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں
اور مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ اور یہی وہ پرفضا مقام ہے جہاں بیٹھ کر ملک کے
سیاسی معاملات میں مداخلت کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ جمہوری حکومت کا تختہ
الٹنے کا فیصلہ کرلیا جاءے تو پوری فوجی مشینری اپنے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ ان
جرنیلوں کے اشارے کی منتظر ہوتی ہے۔
مجھے یہ کالم
لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ پچھلے ہفتے ریکارڈ کیے جانے والے ایک ٹی وی پروگرام
میں بحث کا ایک موضوع یہ تھا کہ پاکستان میں سول-ملٹری تعلقات کیسے جارہے ہیں۔ یا
باالفاظ دیگر، کیا سول حکومت نے فوج کو خوش اور مطمءن رکھا ہوا ہے؟ ایک مبصر کا
کہنا تھا کہ موجودہ سول حکومت کو اچھی کارکردگی دکھا کر اپنی افادیت ثابت کرنا ہے۔
پس پشت دھمکی یہ ہے کہ اگر سول حکومت نے فوج کو خوش ومطمءن نہ رکھا تو فوج حکومت
کا تختہ الٹ دے گی۔
آءین پاکستان
میں ایسی کوءی شق نہیں ہے جو بتاءے کہ ملک چلانے کی اصل ذمہ داری فوج کے پاس ہے
اور فوج ہی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کب کس جمہوری حکومت کو اس کی 'نااہلی' پہ چلتا
کیا جاءے۔ ہر سول حکومت کے سر پہ لٹکنے والی اس تلوار کو اب مستقلا میان میں ڈالنے
کا وقت آگیا ہے۔
Labels: Aziz Bhatti, Civil Military Relations in Pakistan, Corp Commanders, Pakistan Army's interference in politics, Rashid Minhas