Saturday, May 10, 2014

 

ماں کے دن کے موقع پہ ایک پرانی تحریر

ماں کے دن کے موقع پہ ایک پرانی تحریر



ناول 'راستہ جو منزل ہے' سے حرف شکر [سنہ ۱۹۹۵]
ہر کتاب کے پیچھے ایک شخص کی محنت اور بہت سے لوگوں کی قربانیاں ہوتی ہیں۔ آس پاس کے ان بہت سے لوگوں کی قربانیوں کے بغیر ایک آدمی کی محنت کچھ رنگ نہیں لا سکتی۔ اس کتاب کے معاملے میں یہ کلیہ اور بھی زیادہ لاگو ہوتا ہے۔
میرے قریب کے لوگوں کی قربانیوں میں سب سے بڑھ کر میری ماں کی قربانیاں ہیں۔ وہ جو بلاناغہ تڑکے اٹھتی ہے اور ہر روز گھر کی پیچیدہ کائنات کو بخیر و خوبی چلاتی ہے۔ جو چپ چاپ اپنے دکھ سہتی ہے اور جس کی ذات سے مجھے صرف خوشیاں ملتی ہیں۔
وہ اپنی بہوئوں سے ان باتوں میں سے کچھ بھی نہیں چاہتی جو اس کی ساس اس سے چاہتی تھی۔
وہ بغیر بیمار پڑے مستقل کام کیے جاتی ہے اور بچے پالنے کے بعد دوسروں کے بچوں کو پال پال کر بڑا کر رہی ہے۔
وہ کسی سے کوئی شکایت نہیں کرتی اور ہر ایک کی تکلیف کو بہت گہرائی سے محسوس کرتی ہے۔
وہ مستقل ایک ایسی بوڑھی، نادار عورت کی خدمت کیے جارہی ہے جو اس کی ساس ہے اور جس سے ماضی میں اس کے تعلقات بہت کشیدہ رہ چکے ہیں۔
لڑکپن میں آپ ماں کی عظمت کے متعلق اتنے مضامین پڑھتے ہیں کہ آپ حیران ہوتے ہیں کیا یہ سب کچھ صحیح ہے۔ اس عمر میں یہ حیرت کوئی بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس عمر میں لوگ اپنی مائوں سے الجھتے ہیں اور ان سے بحث و تکرار کرتے ہیں۔ اور ایسا شاید اس لیے ہوتا ہے کہ لڑکپن اور جوانی تک انسان کے تجربات بہت محدود ہوتے ہیں۔ مگر جب یہ لوگ بڑے ہوتے ہیں، جب یہ بہت سارے لوگوں سے مل لیے ہوتے ہیں، اور انہوں نے عورت کے بہت سارے روپ دیکھ لیے ہوتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ماں کے روپ میں عورت نہ صرف عظیم ترین ہے بلکہ اس رشتے میں وہ خدا سے اتنے قریب ہے کہ ماں کے بعد بہت بڑا فاصلہ ہے جس میں کوئی رشتہ نہیں ہے اور پھر کافی نیچے آ کر دوسرے رشتے شروع ہوتے ہیں۔ یوں جیسے کسی امتحان میں نو سو ننانوے نمبر لے کر ایک طالب علم پہلی پوزیشن حاصل کرے اور پھر پانچ سو ایک نمبر لے کر کوئی دوئم آئے اور وہاں سے نچلی پوزیشنیں شروع ہوں۔
شاید ہر شخص اپنی ماں کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتا ہوگا مگر جب میں نظر دوڑا کر آس پاس دیکھتا ہوں تو اکثر عورتوں کو کسی نہ کسی صورت اپنی ماں سے کم پاتا ہوں۔ یا تو وہ عورتیں پھوہڑ ہیں یا بہت بدزبان ہیں۔ یا وہ اپنے بچوں کی تعلیم میں ذاتی دلچسپی نہیں لیتیں۔ یا پھر ان کو غم کے موقعوں پہ لوگوں کی دل جوئی کرنا، کامیابی کے موقعوں پہ لوگوں کی تعریف کرنا، انہیں شاباش دینا، اور اسی طرح کی عام سماجی صورتوں سے احسن طریقے سے نپٹنا نہیں آتا۔ یہ ساری باتیں دیکھ کر میں اپنی ماں کی عظمت کا اور قائل ہوتا جاتا ہوں۔
میری ماں بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کی نفسیات اچھی طرح سمجھتی ہے۔ میں جب کسی تقریب میں نہیں جا پاتا تو میری ماں اس محفل میں شرکت سے واپسی پہ مجھ سے یوں ہی کہتی ہے کہ "سب لوگ تم کو بہت پوچھ رہے تھے۔" اور میں اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہوئے بھی خوش ہوجاتا ہوں کیونکہ یہ جھوٹ مجھے خوش کرنے کے لیے ہی بولا گیا ہوتا ہے۔
اور میری ماں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ کسی دور کے رشتہ دار کے انتقال پہ کس طرح کا خط لکھنا ہے، اور کسی کے گھر جا کر تعزیت کیسے کرنی ہے، اور وہ بچے جو اچھے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں ان کو کیسے شاباش دینی ہے،اور نوکروں کے ساتھ کب ہمدردی کرنی ہے اور کب سمجھ جانا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
میری ماں کے وجود کا فیض بہت سے دوسرے گھروں میں بھی پہنچا ہے۔ ہر دور میں جب میری ماں نے کچھ بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیجا اور ان بچوں کا دوپہر میں واپسی پہ شدت سے انتظار کیا تو ان بچوں کی دفاتر میں کام کرنے والی مائیں یہ سوچ کر مطمئن رہیں کہ ان کے بچے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور یہ خواتین اپنے دفاتر میں سکون قلب سے کام کر سکیں۔ اس طرح میری ماں کا فیض ان دفاتر سے ہوتا ہوا خیر کی صورت میں پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔
میری ماں کے وجود کے پھیلتے فیض کا ایک اور انداز یہ ہے کہ اس کے پڑھتے بچوں کو دیکھ کر بہت سے دوسرے بچوں نے اچھا پڑھنے کا تہیہ کیا اور اچھا پڑھا۔ اور پھر ان دل لگا کر پڑھتے بچوں کو اور بچوں نے اپنا رول ماڈل بنایا اور یوں یہ سلسلہ لہر در لہر آگے بڑھ رہا ہے۔
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو میری ماں آنسوئوں سے روتی ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کے یہ آنسو زمین پہ گریں، آسمان سے دو فرشتے اترتے ہیں اور مجھے بازوئوں سے اٹھا کر صحت کی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ میری ماں میرے لیے سارے مسیحائوں سے بڑھ کر مسیحا ہے۔ میری ماں، تمھارا احسان میرے اوپر سب سے زیادہ ہے اور میں اکثر رات گئے نم آنکھوں سے ان بیش قدر احسانوں کو یاد کرتا ہوں۔


Labels: ,


Comments:
Indeed. She is an inspiration
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?