Monday, April 21, 2014

 

اسی کی دہاءی کا پی ٹی وی




مارچ تیس،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو بیاسی


اسی کی دہاءی کا پی ٹی وی



اصغر ابوبکر اور ان کے ساتھی پاکستان امریکن کلچرل سینٹر[پی اے سی سی] نامی ادارے کو بہت محنت سے چلارہے ہیں۔ پی اے سی سی ہر سال تءیس مارچ کے آس پاس یوم پاکستان کے عنوان سے ایک پروگرام سان فرانسسکو بے ایریا میں منعقد کرتا ہے۔ اس سال کا یوم پاکستان پروگرام مارچ انتیس کے روز کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں سجایا گیا۔ اس پروگرام میں اسی کی دہاءی کے پاکستانی ٹی وی کے تجربے کو پھر سے تازہ کرنے کی کوشش کی گءی۔ اسی کی دہاءی سے اس قدر محبت کیوں؟ شاید اس وجہ سے کہ پی اے سی سی کے کرتا دھرتا لوگوں کی اکثریت نے پاکستان کو اسی کی دہاءی میں ہی شعوری نظر سے دیکھا تھا۔
اسی کی دہاءی پاکستان کے لیے ایک عجیب وقت تھا۔ بظاہر ملک پہ ایک سکوت طاری تھا۔ ہر چیز ٹھیک ٹھاک چلتی نظر آتی تھی۔ مگر پس منظر لاوا پک رہا تھا۔ افغانستان میں ایک جنگ جاری تھی جس کے لیے امریکی اسلحہ پاکستان سے گزرتا تھا اور بہت سا اسلحہ راستے سے غاءب ہوجاتا تھا۔ جمہوریت کے کچھ دیوانے ایم آر ڈی کے نام سے ایک مہم چلا رہے تھے مگر یہ تحریک اندرون سندھ میں سختی سے کچل دی گءی تھی۔ عام پاکستانی تک خبر پہنچانے کی طاقت صرف ریاست کے پاس تھی چنانچہ ریاست وہی خبر لوگوں تک پہنچاتی تھی جس کو سنانے سے کوءی ماتھا نہ ٹھنکے۔ اس زمانے میں پاکستان امریکہ کا خاص حواری تھا چنانچہ ملک میں معاشی اعتبار سے بھی حالات اچھے نظر آتے تھے۔  ایسے 'پرسکون' ماحول میں پاکستان کے بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ کام سے پلٹنے کے بعد ٹی وی پہ 'نیلام گھر' نامی پروگرام میں قیمتی انعامات طارق عزیز کے سوالات کے صحیح جوابات دینے والوں میں بنٹتے دیکھتے؛ پھر یہ لوگ 'ففٹی ففٹی' نامی پروگرام کے چٹکلوں پہ خوب ہنستے؛ اور بنجمن سسٹرز کو ٹی وی پہ ایک آواز میں گاتا سن کر ان کے ساتھ سرملاتے؛ اور اس پورے سلسلے کا اختتام نو بجے کے خبرنامے سے ہوتا جس میں بتایا جاتا کہ ملک میں مکمل امن و امان ہے اور مرد مومن، مرد حق جنرل ضیاالحق کی قیادت میں پاکستان جلد ایک مثالی اسلامی ریاست بن جاءے گا۔
مگر اس وقت کو اب تیس سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اسی کی دہاءی کے بظاہر سکون کی اوٹ میں پروان چڑھنے والا طوفان اس وقت پوری قوت سے پاکستان پہ برس رہا ہے۔ گلوکار عالمگیر تو بہت پہلے امریکہ آگءے تھے؛ اب تین میں سے دو بنجمن سسٹرز بھی اپنے پرانے پرستاروں کے پیچھے پیچھے امریکہ آگءی ہیں۔ 'تو جو نہیں ہے، تو کچھ بھی نہیں ہے' گانے والے مشہور زمانہ ایس بی جان بھی اب نیویارک میں رہتے ہیں اور ان کے دو موسیقار لڑکے، رابن اور گلین جان، اب مختلف پروگراموں میں اپنے قابل باپ سے سیکھے گءے ہنر کو شاءقین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
مارچ انتیس کے یوم پاکستان پروگرام میں 'نیلام گھر' کی یاد تازہ کی گءی۔ بے ایریا کے جانے پہچانے اداکار اوصاف مسعود نے نہایت خوش مزاجی سے نیلام گھر کی میزبانی کے فراءض انجام دیے اور پروگرام کے اسپانسرز [جادو ٹی وی، ایچ ڈی ایف، جاوید اور شہناز اقبال، آصف اور شاہینہ حق، صفوان شاہ، عمرانی اینڈ ایسوسی ایٹس، اور ٹوٹل ویلث سلوشنز] کی طرف سے دیے گءے قیمتی انعامات [نقد تحاءف، آءی پوڈ، ٹیبلٹ کمپیوٹر، بگ اسکرین ٹی وی، اور یقینا اصل نیلام گھر کا مخصوص واٹر کولر] کامیاب شرکا میں تقسیم کیے۔ یوم پاکستان کے نیلام گھر میں اصل نیلام گھر کے تین خاص حصے [معلومات عامہ کے سوالات، تیراندازی، اور نوبیاہتا جوڑوں سے سوالات] شامل تھے۔
پھر باری آءی بنجمن سسٹرز کی۔ اصل تین بنجمن سسٹرز میں ایک شادی کے بعد اب مشرق وسطی میں رہتی ہیں؛ ان کی کمی ایک مقامی گلوکارہ سے پوری کی گءی۔ بنجمن سسٹرز نے رابن اور گلین جان کی موسیقی کی مدد سے یکے بعد دیگرے اپنے ہٹ نغمے پیش کے اور یادوں کی بارات میں ڈوبے سامعین کو رات بارہ بجے تک مبہوت رکھا۔
پی اے سی سی کا مارچ انتیس کا پروگرام اصغر ابوبکر، رابعہ عادل، فرخ شاہ خان، شہزاد بصیر، نسرین ابوبکر، نورین طارق، ماہین خان، سہیل اکبر، عظمی رءوف، امجد نورانی، نجمہ نورانی، اور دیگر رضاکاروں کی انتھک محنت کی وجہ سے کامیاب ہوا۔

Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?