Sunday, February 23, 2014

 

چھوٹے چین سے چھوٹے ہندوستان تک





جنوری چھبیس،  دو ہزارچودہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تہتر
چھوٹے چین سے چھوٹے ہندوستان تک



سفر کی ڈاءری۔ جنوری  تین۔ دن رات ابھی تک الٹے چل رہے ہیں۔ میری صبح دن بارہ بجے کے قریب ہوتی ہے۔ میں جس ہوٹل میں ٹہرا ہوں وہ کوالالمپور کے چاءنا ٹاءون میں واقع ہے۔ ہوٹل سے باہر نکلیں تو فورا بازار کی رونق شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سڑک صرف پیدل چلنے والوں کے لیے ہے۔ انواع واقسام کا سامان اس سڑک پہ لگے ٹھیلوں پہ ڈھیر ہے۔ یہاں سیاح بھی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ چھابڑی والے سیاحوں کو مسٹر مسٹر پکار پکار کر ان کی توجہ اپنے سامان کی طرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر سیاح بے اعتناءی سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔  ہوٹل سے نکل کر میں اس علاقے کی طرف چل پڑا جسے چھوٹا ہندوستان [لٹل انڈیا] کہتے ہیں۔ اس علاقے میں اپنے لوگوں کی اکثریت ہے اور بڑی تعداد تاملوں کی ہے۔ ایک شخص سے چھوٹے ہندوستان کا راستہ پوچھا تو اس نے سامنے  کھڑی بس کی طرف اشارہ کردیا کہ اس میں بیٹھ جاءو۔ میں نے دو انگلیوں کے اشارے سے پیدل چلنے کا اشرہ کیا تو اس نے کسی قدر حیرت سے مجھے دیکھا اور پھر راستے کی نشاندہی کردی۔ سفر میں میری حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ میں انگریزی نہ بولوں؛ کچھ اردو، کچھ مقامی زبان، اور کچھ اشاروں سے اپنا کام چلا لوں۔ میرا انگریزی سے کیا لینا دینا کہ دوسرے سیاحوں کی طرح میں بھی انگریزی بول کر انگریزی کی اہمیت اجاگر کروں اور زمانے کو یہ پیغام دوں کہ جو انگریزی نہیں جانتا وہ کسی کام کا نہیں ہے۔
سفر میں کسی نءی جگہ پہنچ کر وہاں پیدل چلنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ چیزوں کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں اور یوں زمین سے آپ کا رشتہ قاءم ہوجاتا ہے۔ چھوٹے ہندوستان کی طرف جاتے ہوءے راستے میں کءی جگہ فٹ پاتھ بالکل تنگ ہوگءی؛ ایک جگہ میں ایسے ہی تنگ راستے سے ایک پل کے نیچے سے گزرا جہاں میرے برابر سے تیز رفتار ٹریفک گزر رہا تھا۔ بہت پہلے مہاتیر نے وژن ۲۰۲۰ کا نعرہ لگایا تھا کہ ملاءیشیا ترقی کرتے کرتے ۲۰۲۰ تک دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ میں اس تنگ راستے پہ چلتا ہوا، جہاں جگہ جگہ کچرا بکھرا ہوا تھا، سوچ رہا تھا کہ ۲۰۲۰ میں صرف چھ سال رہ گءے ہیں۔ کیا ان چھ سالوں میں ملاءیشیا واقعی جاپان اور سوءیڈن کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا؟ مجھے جواب نفی میں ملا۔
آگے جا کر پررونق علاقہ شروع ہوگیا۔ ایک جگہ سڑک پار کرنے کے لیے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اچانک وہاں تین نابینا نمودار ہوءے۔ انہوں نے جارحانہ انداز میں اپنی سفید چھڑیاں داءیں باءیں ہلاءیں۔ ان چھڑیوں کی مار اپنے جوتوں پہ کھا کر باقی لوگ کچھ احترام اور کچھ ڈر سے پیچھے ہٹ گءے اور یہ تینوں نابینا سب سے آگے کھڑے ہوگءے۔ اب ان کو کیسے بتایا جاءے گا کہ 'چلو بھاءی، سڑک پار کرنے کا اشارہ ہوگیا ہے۔' مگر یہ تینوں بہت ہوشیار تھے۔ گاڑیوں کے تھمنے کی آواز سن کر یہ سمجھ  گءے کہ پیدل والوں کے لیے چلنے کا اشارہ ہوگیا ہے، یہ چل پڑے۔
 چھوٹے ہندوستان میں ایک ریستوراں پسند آیا کہ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے اور کھانا کھا رہے تھے۔ دکان کے ساءن کے ساتھ ہی کلمہ تحریر تھا۔ یہ خفیہ پیغام تھا کہ ریستوراں چلانے والے لوگ مسلمان ہیں اور وہاں حلال کھانا موجود ہے۔ ان کا مینیو دیکھا مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ ویٹر سےکہا کہ نان لاءو، سالن لاءو۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ایک تھالی آگءی جس میں دو طرح کے سالن تھے اور دو تربتر پراٹھے تھے۔ پراٹھے تو ذرا سی دیر میں چٹ پٹ ہوگءے، سالن بچ گیا۔ میں کھانے کے ساتھ سنگترے کا رس کسی قدر احتیاط سے پی رہا تھا کہ اس میں برف پڑی تھی۔ ویٹر سے کہا کہ چاول لے آءو کہ بقیہ سالن اس چاول سے ختم کروں۔ اس نے پوچھا، دال؟ کہا، اچھا دال بھی لے آءو۔ ایک اور تھالی آگءی جس میں چاول کے ساتھ دال، اور سبزی بھی تھی۔ میں نے وہ سب ذرا سی دیر میں ختم کردیا۔ کھانا مزیدار اور خوب مصالحے والا تھا۔ گرمی پہلے ہی خوب تھی، یہ کھانا کھا کر پسینے چھوٹ گءے۔
اس ریستوراں میں چار دیسی نوجوان پہلے سے موجود تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ تامل ہوں گے مگر ان کی گفتگو غور سے سنی تو وہ پنجابی بول رہے تھے۔ ایک شخص کے پاس اس کا سوٹ کیس بھی تھا اور لگتا تھا کہ وہ ابھی کوالالمپور پہنچا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد تین اور دیسی میرے سامنے والی میز پہ آگءے۔ یہ پکی عمروں کے تھے۔ ان میں جو وضع قطع سے سکھ معلوم دیتا تھا بہت صاف اردو بول رہا تھا۔ مجھے خیال ہوا کہ سنہ سینتالیس کے فسادات میں اس کے باپ دادا مغربی پنجاب سے دربدر ہو کر یوپی کے کسی شہر  میں پہنچے تھے اور یوپی میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے اس کی زبان گنگا جمنی تھی۔ وہ باقی دو کو مشورے دے رہا تھا کہ 'آپ یہاں جو کرنا چاہیں کریں، میں ہر طریقے سے آپ کی پوری مدد کروں گا۔' غالبا بات یہ ہورہی تھی کہ بقیہ دو میں سے ایک نووارد کو ملاءیشیا میں کیا کام کرنا چاہیے۔ ان تینوں نے لسی پی اور کچھ ہی دیر میں وہاں سے اٹھ گءے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?