Thursday, February 27, 2014

 

کپڑے سکھانے کا بہتر طریقہ



فروری تءیس،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ستتر

کپڑے سکھانے کا بہتر طریقہ


پاکستان سے آنے والی بیشتر خبریں خون آلود ہیں۔ اتنے پرتشدد ماحول میں اگر میں کچھ اور نہیں کرسکتا تو کم از کم آنکھیں ضرور موند سکتا ہوں۔ چنانچہ آج کا کالم اسی اجتنابی جذبے کے ساتھ ہے۔
میں جس وقت کوالالمپور ہواءی اڈے میں گیٹ بتیس تک پہنچا تو وہاں 'کلوزڈ' [بند] کا نشان جلایا جا چکا تھا۔ مگر جہاز سے پل [جیٹ برج] اب تک نہیں ہٹا تھا، اور اسی لیے مجھے جہاز میں چڑھنے دیا گیا۔ کچھ دیر بعد جب میں اپنی نشست پہ بیٹھا جہاز سے باہر دیکھ رہا تھا تو اپنی اس کامیابی کا جشن منا رہا تھا کہ میں صرف ایک گھنٹہ اور پچیس منٹ پہلے کوالالمپور شہر کے مرکز میں تھا، جہاں سے ہواءی اڈے کا فاصلہ گھنٹے بھر کا ہے، اور اب یہاں جہاز میں بیٹھا تھا، جب کہ مسافروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بین الاقوامی پرواز کے لیے ہواءی اڈے پہ دو سے تین گھنٹے پہلے پہنچیں۔ دراصل میں یہ کام یوں کرپایا کہ چند دن پہلے ہی میں نے کپڑے سکھانے کے بہتر طریقے کے بارے میں سوچا تھا۔ سفر میں میرے پاس بہت کم سامان ہوتا ہے۔ تن پہ جو کپڑے ہوتے ہیں ان کے علاوہ زیرجامے اور موزے تو سامان میں ہوتے ہیں مگر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ قریبا ہررات کپڑے دھونے ہوتے ہیں تاکہ صبح تک سوکھ جاءیں۔ کبھی میں بہت تھکا ہوا ہوتا ہوں تو جیسے تیسے کپڑے دھونے کا کام کرکے بستر میں دراز ہوجاتا ہوں؛ ایسی صورت میں مجھے اکثر صبح اپنے کپڑے نم ہی ملتے ہیں۔ اور اگر میں تھوڑی سی محنت کروں اور کپڑوں کو دھونے کے بعد انہیں اچھی طرح نچوڑوں اور پھر دیر تک جھٹکوں یہاں تک ہر جھٹک پہ کپڑے سے اڑنے والی چھینٹیں بہت مہین ہوتے ہوتے قریبا بالکل غاءب ہوجاءیں، اور اتنی محنت کے بعد کپڑوں کو سوکھنے کے لیے ڈالوں تو بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ صبح مجھے وہ کپڑے بالکل سوکھے ملیں گے۔ کپڑے سکھانے کے اس انداز میں میرے لیے زندگی بھر کا سبق موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ کوءی بھی کام کرنے کا ٹھانو تو اس کی ازحد تیاری کرو؛ جس کام کی جس قدر زیادہ تیاری کی جاءے گی، اس کی کامیابی کے امکانات اس قدر زیادہ ہوں گے۔ اور کپڑے سکھانے کا یہ سبق میں نے کوالالمپور سے روانگی میں بھی اختیار کیا تھا۔ مگر اس سے پہلے کچھ پرانا حال سن لیں۔ انڈونیشیا میں میرا سفر جکارتا سے جزیرہ جافا کے مشرقی کونے تک تھا، پھر وہاں سے بحری جہاز سے جزیرہ بالی۔ اور سفر کا اختتام اس طرح ہونا تھا کہ بالی سے واپس کوالالمپور آنا تھا۔ اس سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے میں نے بالی سے کوالالمپور کے کراءے دیکھے تو وہ کراءے مجھے بہت مہنگے معلوم دیے۔ پھر غور کیا کہ اگر میں بالی سے جکارتا ایک پرواز سے جاءوں اور جکارتا سے کوالالمپور دوسری سے تو ان دونوں پروازوں کے کراءے کا مجموعہ بالی سے کوالالمپور کے کراءے سے بہت کم تھا۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور بالی سے کوالالمپور پہنچنے کے سفر کو دو حصوں میں توڑ لیا۔ مگر اءیر ایشیا کو میری یہ سہولت ذرا نہ بھاءی چنانچہ سفر سے تین روز پہلے مجھے ایک ای میل موصول ہوءی کہ بالی سے جکارتا جانے والی پرواز منسوخ ہوگءی ہے اور اب مجھے بالی سے جکارتا رات کی پرواز میں سوار کیا جاءے گا۔ قباحت یہ تھی کہ یہ پرواز جس وقت جکارتا پہنچتی تھی، اس سے کءی گھنٹے پہلے میری جکارتا سے کوالالمپور والی پرواز کو روانہ ہونا تھا۔ گویا اءیر ایشیا نے میرا یہ انتظام کردیا تھا کہ میری جکارتا سے کوالامپور والی پرواز نکل جاءے اور اگر میں اس رات کوالالمپور نہ پہنچوں تو پھر سویرے کوالالمپور سے ہانگ کانگ والی پرواز میرے ہاتھ سے نکل جانی تھی۔ اس ای میل کو دیکھ کر میں فورا حرکت میں آگیا۔ پہلے اءیر ایشیا کے نماءندے سے آن لاءن چیٹ کی۔ اس نے مشورہ دیا کہ میں ان سے فون پہ بات کروں، چنانچہ فورا ہی اسکاءپ کے ذریعے ان کے بالی دفتر کو فون ملایا۔ میں اس وقت انڈونیشیا کے قصبے بانیوونگی میں تھا۔ اءیر ایشیا کے نماءندے نے پہلے آنا کانی کی اور کہا کہ وہ مجھے اصل دن سے اگلی صبح، سویرے ہی کوالامپور پہنچا دیں گے۔ مگر میں ایسا کھیل کھیلنے کےلیے تیار نہ تھا۔ میں نے انہیں راءے پیش کی کہ وہ میری دونوں پروازیں مسنوخ کر کے مجھے بالی سے سیدھا کوالالمپور لے جاءیں۔ اگر کرایہ زیادہ ہے تو کراءے کی اضافی رقم کا کچھ حصہ اءیر ایشیا دے، کچھ میں دوں کہ اصل قصور تو اءیر ایشیا کا ہے کہ انہوں نے اپنی پرواز کیوں منسوخ کی۔ نماءندے نے کہا کہ وہ دیکھے کا کہ کیا کیا جاسکتا ہے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں شام تک دوبارہ ان سے رابطہ کروں۔ میرے جارحانہ رویے کا یہ نتیجہ نکلا کہ مجھے ان کو دوبارہ فون کرنے کی ضرورت نہ پڑی اور اءیر ایشیا کی طرف سے آنے والی ایک ای میل میں بتایا گیا کہ میری بالی سے براہ راست کوالالمپور کی نشست محفوظ کرلی گءی ہے۔ اور اس طرح میں بالی سے سیدھا کوالالمپور پہنچا۔ اگلی صبح ہی مجھے ہانگ کانگ کے لیے جہاز لینا تھا اور اسی وجہ سے میری خواہش تھی کہ میں ہواءی اڈے پہ ہی کسی ہوٹل میں ٹہرجاءوں مگر ایسا انتظام نہ ہوپایا۔ جب میں مرکز شہر میں ایک ہوٹل میں چیک ان کررہا تھا تو اس وقت رات کے گیارہ بجا چاہتے تھے۔ میرا بالکل دل نہ تھا کہ میں صبح پانچ بجے اٹھوں اور بھاگم بھاگ اپنی پرواز سے دو سے تین گھنٹے پہلے ہواءی اڈے پہنچوں۔ آن لاءن دیکھا تو معلوم ہوا کہ اءیرلاءن کے پاس آن لاءن چیک ان کرنے اور بورڈنگ پاس حاصل کرنے سہولت موجود تھی، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ہوٹل کے استقبالیہ پہ بورڈنگ کارڈ پرنٹ کروایا اور حساب لگایا کہ جہاز چلنے سے دس منٹ پہلے گیٹ تک پہنچنے کے لیے کس وقت ہواءی اڈے پہنچنا چاہیے اور کس وقت صبح اٹھنا چاہیے۔ حساب کتاب تو تیکھا کیا گیا اور اس منصوبے کے حساب سے کام ہوبھی گیا مگر یہ خیال رہا کہ اگر کسی وجہ سے کوالالمپور سینترال سے ہواءی اڈے جانے والی ٹرین نکل جاتی، یا امیگریشن پہ قطار زیادہ لمبی ہوتی، یا قطار میں موجود لوگ میری درخواست پہ مجھے اپنے سے آگے نہ جانے دیتے، تو میرا جہاز یقینا نکل جاتا۔ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے اچھی تیاری ضروری ہے مگر اس منصوبہ بندی میں کچھ اضافی وقت کا حساب رکھنا یقینا عقل مندی ہے۔



Comments:
Welcome to the Internet check-in. No one should miss the curb-side-check-in days.
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?