Wednesday, February 26, 2014

 

حسن نثار کی شریعت



فروری سولہ،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھہتر

حسن نثار کی شریعت


طالبان فتنے سے لڑنے کے لیے جس وسیع عوامی حمایت کی ضرورت ہے وہ شاید اب جا کرپاکستان میں بیدار ہونا شروع ہوءی ہے۔ اور عوام کا ذہن بنانے میں، یا باالفاظ دیگر سیاہ و سفید واضح کرنے میں، پاکستانی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ حال میں ایک ٹی وی شو میں حسن نثار کا سامنا انصار عباسی اور اوریا مقبول جان سے ہوا۔ انصار عباسی اور اوریا مقبول جان دو ایسے مبصرین ہیں جن کی ہمدردیاں واضح طور پہ طالبان کے ساتھ ہیں۔ طالبان سے ہمدردی رکھنا شاید اتنا برا نہیں ہے جتنا ایک گنجلک سوچ رکھنا۔ یہ دونوں حضرات اپنی گنجلک سوچ سے پاکستان کے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ زیر موضوع ٹی وی شو میں حسن نثار نے ان دونوں حضرات کی اچھی مٹی پلید کی مگر حسن نثار نے ان دو بھٹکے ہوءے مبصرین پہ یہ واضح نہیں کیا ان دونوں کی سوچ میں اصل خرابی کیا ہے۔ ان دونوں کو یہ باور نہ کرایا کہ جس طرح انصار عباسی اور اوریا مقبول جان ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھتے ہیں اور شریعت محمدی کا نفاذ چاہتے ہیں، حسن نثار سمیت سارے مسلمان بھی بالکل ایسا ہی چاہتے ہیں۔ اختلاف اس بات پہ ہے کہ اسلامی ریاست کیا ہوتی ہے اور شریعت محمدی کے کیا معنی ہیں۔ اور یہ بہت بڑا اختلاف ہے۔ ہم طالبان کو ہرگز ہرگز اسلام کا ٹھیکیدار نہیں سمجھتے اور لفظ 'شریعت' پہ ان کی اجارہ داری کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم طالبان کو اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں اور دل سے سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ جس نظام کو 'شریعت محمدی' کہہ کر نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل 'شریعت طالبانی' ہے اور ایک شیطانی نظام ہے۔ اور طالبان کو ہم اسلام کا دشمن اس لیے سمجھتے ہیں کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غیرمسلموں میں اسلام کے خلاف جو نفرت بڑھ رہی ہے وہ طالبان اور ان جیسے گمراہ گروہوں کی وجہ سے ہے۔ جس طرح ایک شخص زہر کی بوتل پہ 'شہد' کا لیبل لگا کر دنیا کو بے وقوف بنا سکتا ہے بلکہ اسی طرح طالبان اپنی گمراہ سوچ اور فکر پہ 'اسلام' کا لیبل لگا کر پاکستانیوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
اور اگر ہمیں مسلم دنیا میں داءیں سے باءیں پھیلی طرح طرح کی 'شریعت محمدی' میں سے کسی ایک کو چننے کا کہا گیا تو ہم آغاخانیوں کی شریعت محمدی کو طالبان کی فسادی شریعت پہ فوقیت دیں گے۔
دنیا میں بہت سے اسلامی ممالک ہیں اور پاکستان میں رہنے والے لوگ ان ملکوں کو دیکھتے ہوءے اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ہم ملاءیشیا کو سعودی عرب سے زیادہ بہتر اسلامی ملک خیال کرتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو اسلامی آزادی ہے کہ وہ اپنے لیے جو راہ چاہیں اختیار کریں؛ کوءی ڈنڈے کے زور پہ لوگوں کو 'صراط مسقیم' پہ نہیں چلارہا۔ ہم پاکستان کو ایک ایسی مضبوط فلاحی اسلامی ریاست کے طور پہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ریاست مذہبی معاملات سے مکمل کنارہ کشی کر لے؛ ریاست یہ فیصلے نہ کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔ ریاست لوگوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دے اور سارا دھیان امن عامہ اور ایک منصف معاشرے کے قیام کی طرف دے۔ یہ وہ منصف اسلامی معاشرہ ہوگا جہاں تمام بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر ہوگی؛ جہاں  ریاست صحت عامہ کو یقینی بناءے گی؛ جہاں کوءی بھوکا نہ سوءے گا۔ یہ ایک ایسی مثالی ریاست ہوگی جس کے عدل کے چرچے دور دور ہوں گے اور دنیا بھر سے لوگ اس ریاست میں آکر اس کا شہری بن جانا چاہیں گے۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?