Tuesday, February 25, 2014

 

کوما اور عدنان









فروری نو،  دو ہزارچودہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچھتر

کوما اور عدنان



سری لنکا میں کوما کی اور ملاءیشیا میں عدنان کی کہانیاں سن کر میں بہت دیر تک ترک وطن معاملے کے متعلق سوچتا رہا۔ وہ کونسے عوامل ہیں جو لوگوں کو ترک وطن پہ مجبور کرتے ہیں، لوگ اپنی شناخت کیا سمجھتے ہیں، وہ اپنی آباءی جگہ چھوڑ کر نءی جگہ جاءیں تو ان کی شناخت کن مراحل سے گزرتی ہے، وغیرہ، وغیرہ۔ میرے لیے یہ موضوعات اجنبی نہیں ہیں کہ میں خود بھی تارک وطن ہوں، مگر مجھے دوسرے تارکین وطن کی کہانیاں سننے میں مزا آتا ہے۔ ان کہانیوں کو غور سے سن کر میں ایک نءے زاویے سے خود اپنی زندگی کو دیکھ سکتا ہوں۔
کوما سری لنکا میں سیلزمین کا کام کرتا تھا جب اسے موقع ملا کہ وہ مسقط جا کر اس سے کہیں زیادہ پیسے بنا لے جتنے اسے سری لنکا میں ملا کرتے تھے۔ وہ مسقط چلا گیا۔ وہاں وہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے ساتھ کام کرتا تھا اور اسی لیے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تھوڑی بہت ہندی/اردو جانتا تھا۔ مگر جب میں نے اس سے اپنی زبان میں بات کرنے کی کوشش کی تو وہ لفظ 'اچھا' سے آگے نہ بڑھ پایا۔ اس کے باوجود جب ہم مسافر آپس میں اردو میں باتیں کرتے تو وہ خاموش ہو کر ہماری گفتگو سنتا تھا اور مجھے خیال تھا کہ چاہے وہ اردو بول نہ سکتا ہو مگر وہ ہماری زبان اچھی خاصی سمجھتا تھا۔ کوما کچھ ہی عرصہ مسقط میں رہا اور جب سری لنکا میں ایک ایسی آسامی نکلی جس میں کوما مسقط کی ملازمت سے تھوڑی ہی سی کم رقم بنا سکتا تھا تو کوما واپس سری لنکا پلٹ آیا۔ مسقط ہو یا بحرین، عرب امارات ہوں یا سعودی عرب، تیل کے بل بوتے پہ تیزی سے مادی ترقی کرنے والے ان ممالک سے پلٹنا اتنا مشکل فیصلہ نہیں ہوتا کیونکہ ان ممالک میں کسی بھی تارک وطن کا اپنی نءی جگہ سے رشتہ محض ایک نوکری کے توسط سے ہوتا ہے؛ اس ملازمت سے آگے کا کوءی انعام نہیں ہوتا۔ آگے کے انعامات مغربی ممالک کا خاصہ ہیں۔ 
کوالالمپور میں عدنان سے میری ملاقات یوں ہوءی کہ ایک روز میں چھوٹے ہندوستان کی وسیع شاہراہ کو چھوڑ کر اندر کی طرف نکل گیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ کوالالمپور جو کچھ سیاحوں کو دکھانا چاہتا تھا، اس کے پیچھے کیا ہورہا تھا۔ میں کءی بغلی روڈوں پہ چلتا ہوا ایک اور وسیع سڑک پہ آگیا۔ یہاں ریل کی پٹری کے اوپر موجود پل پار کرنے کے بعد میں پھر داءیں طرف مڑگیا۔ مجھ سے آگے ایک شخص شلوار قمیض میں ملبوس چلا جا رہا تھا۔ تیز تیز قدم چلتا میں کچھ دیر میں اس تک پہنچ گیا۔ میں نے اس سے اردو میں راستہ پوچھا اور پھر اس کے ساتھ چلنا شروع ہوگیا۔ اس کا نام عدنان تھا اور اس کا تعلق لاہور سے تھا۔ وہ آٹھ جماعتیں پڑھا تھا اور سریے کا کام کرتا تھا۔ ڈاءیوو کمپنی اسے ملاءیشیا لاءی تھی جہاں وہ دو ہزار رنگٹ ماہانہ پہ کام کررہا تھا جب کہ عدنان کے کوالالمپور میں رہنے اور کھانے پینے کے اخراجات چھ سو رنگٹ تھے۔ میں نے حساب لگایا کہ وہ ماہانہ قریبا چودہ سو رنگٹ یعنی پچاس ہزار پاکستانی روپے بچا رہا تھا۔ وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم چلتے چلتے وہاں تک پہنچ گءے جہاں ایک بلند عمارت پہ تعمیراتی کام ہورہا تھا۔ عدنان وہیں کام کرتا تھا۔ سینٹ ریجس ہوٹل کی وہ عمارت جنوبی کوریا کی کمپنی ڈاءیوو انجینءیرنگ اینڈ کنسٹرکشن تعمیر کررہی تھی۔
میں کوالالمپور میں لاہور کے ایک اور نوجوان سے ملا تھا۔ اس صاف رنگ کے دراز قد نوجوان کا نام اذان تھا؛ اس کی خشخشی داڑھی تھی۔ میں جس ہوٹل میں ٹہرا تھا اس کے سامنے، دورویہ سڑک کے پار، ایک ریستوراں تھا جو تامل مسلمان چلاتے تھے۔ اذان وہیں کام کرتا تھا اور تنور پہ روٹیاں لگاتا تھا۔ اس کے پوچھنے پہ جب میں نے اپنا تعلق کراچی سے بتایا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس کی کراچی سے بہت سی اچھی یادیں وابستہ تھیں۔ کراچی میں گزرنے والے وقت کو یاد کرکے اس کی آنکھوں میں چمک آگءی تھی؛ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے کراچی کی بہت سیر کی تھی۔ ایک وقت تھا کہ وہ کورنگی پانچ نمبر میں رہتا تھا اور کراچی کے پرانے علاقوں صدر، جوڑیا بازار، کھوڑی گارڈن، وغیرہ میں ہرروزجاتا تھا۔ اسے موسیقی کا شوق تھا۔ وہ ان جگہوں سے گانوں کی سی ڈی لے کر آتا تھا۔ اسے ملاءیشیا آءے پانچ سال ہوگءے تھےمگر وہ یہاں خوش نہیں تھا۔ وہ واپس لاہور کیوں نہیں چلا جاتا؟ شاید اس لیے کہ وہ جب بھی ملاءیشیا سے تنگ ہوکر واپس پاکستان جانے کے بارے میں سوچتا ہوگا تو پاکستان سے بم دھماکے کی کوءی تازہ خبر آجاتی ہوگی اور وہ ملاءیشیا میں سخت زندگی گزار کر جان بچانے کو پاکستان جانے پہ ترجیح دیتا ہوگا۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ شاید بہت طویل عرصے تک۔ پاکستان کی ناعاقبت اندیش قیادت کچھ اپنی کرنی اور بہت زیادہ ناکرنی سے ملک میں مستقل بدامنی کی کیفیت رکھے گی۔ اورعدنان، اذان، اور ان جیسے ناجانے کتنے لوگوں کی جوانیاں ان ہی حالات کی بھینٹ چڑھ جاءیں گی۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?