Monday, February 24, 2014
منکر نکیر اور کیمرے کی آنکھ
فروری دو، دو ہزارچودہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چوہتر
منکر نکیر اور کیمرے کی
آنکھ
مجھے بچپن
میں بتایا گیا تھا کہ ہر انسان کے تمام اعمال کا مستقل حساب رکھا جارہا ہے۔ یہ
حساب دو فرشتے رکھتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے؛ ایک سیدھے شانے پہ براجمان ہے اور
دوسرا باءیں پہ۔ یہ دونوں اکاءونٹینٹ مستقل اپنے غیرمرءی کھاتوں میں ہمارے گناہ و
ثواب کو ایک طویل جدول میں لکھ رہے ہیں۔ اس کام کے لیے دو کھاتےدار کیوں چاہءیں؟
ایک سے کیوں کام نہیں چل سکتا؟ شاید اس لیے کہ یہ حساب کتاب بہت اہم ہے اور اس جمع
تفریق سے روز قیامت ہماری جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ دو فرشتے یہ حساب رکھیں تو ایک
کی غلطی دوسرے کے کھاتے کو دیکھ کر صحیح کی جاسکے گی۔ مگر یہ سارے غیرمرءی کھاتے
تو آخرت کے روز کھلیں گے؛ اس دنیا میں قانون کی حکمرانی کیسے قاءم کی جاءے؟ وہ
فرشتے کہاں سے آءیں جو لوگوں کی بدی و نیکی پہ مستقل نظر رکھیں؟ انتظار کے لمحات
ختم ہوءے؛ اب سرویلینس کیمرے اس کام کےلیے حاضر ہیں۔ موجودہ سفر میں پیش آنے والے
دو واقعات ملاحظہ فرماءیے۔
بندراناءیکے
ہواءی اڈے پہ چار مسافر کراچی سے پہنچے۔ ان مسافروں کو ہواءی اڈے سے ہوٹل پہنچانے
کا انتظام موجود تھا؛ ایک ڈراءیور آمدہال میں خاتون مسافر کے نام کی تختی لیے کھڑا
تھا۔ یہ چاروں اس ڈراءیور کے ساتھ چلتے ہوءے ہواءی اڈے کے باہر آگءے۔ سامان وین
میں رکھا گیا۔ مسفر سوار ہوءے اور وین وسط شہر میں واقع ایک ہوٹل کی طرف چلنا شروع
ہوگءی۔ قریبا پینتالیس منٹ بعد جب وین اپنی منزل پہ پہنچی اور سامان کا حساب کیا
گیا تو معلوم ہوا کہ ایک سوٹ کیس غاءب تھا۔ مسافر پریشان ہوگءے۔ پوری وین کا
ازسرنو جاءزہ لیا گیا مگر مذکورہ سوٹ کیس نہ ملا۔ سوٹ کیس یقینا جہاز سے نیچے
اتارا گیا تھا اور وین تک لایا بھی گیا تھا۔ پھر کسی طرح وہ سوٹ کیس وہیں رہ گیا
تھا۔ راقم وین ڈراءیور کے ساتھ واپس ہواءی اڈے کی طرف چلا۔ ہواءی اڈے کا طویل
فاصلہ طے کرتے ہوءے تین صورتیں نظر میں تھیں۔ سب سے بہترین صورت تو یہ ہوسکتی تھی
کہ سوٹ کیس بالکل اسی طرح اپنی جگہ موجود ہو جس طرح اسے چھوڑا گیا تھا۔ دوسری صورت
یہ ہوسکتی تھی کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے سوٹ کیس اپنے قبضے میں کر لیا ہو۔ اور
تیسری اور سب سے خراب بات یہ ہوسکتی تھی کہ کوءی اچکا وہ سوٹ کیس لے کر چلتا بنا
ہو۔ ہواءی اڈے پہ پہنچے تو سوٹ کیس اس جگہ نہ تھا جہاں وین کے قریب تر اسے لایا
گیا تھا۔ کچھ فاصلے پہ موجود دو سیکیورٹی اہلکاروں سے معلوم کیا گیا؛ انہوں نے ایک
دفتر بھیجا۔ پھر ایک دوسری جگہ بھیجا گیا۔ وہاں موجود پولیس افسر کی ڈیسک کے پیچھے
لال سوٹ کیس دیوار سے کھڑا صاف نظر آرہا تھا۔ پریشانی ختم ہوءی۔ پولیس افسر نے
شناخت جانچنے کے لیے چند سوالات کیے اور سوٹ کیس میرے حوالے کردیا۔ میں نے وین
ڈراءیور سے کہا کہ آج یہ بات ثابت ہوگءی کہ سری لنکا کے لوگ بہت ایماندار ہیں۔ یہی
بات میں نے ایک سیکیورٹی اہلکار سے کہی تو اس نے کہا کہ تمھارا سوٹ کیس کہیں نہیں
جاسکتا تھا کیونکہ سوٹ کیس جہاں چھوڑا گیا تھا وہاں سامنے کیمرہ لگا تھا۔ کیمرے نے
لوگوں کو ایمانداری پہ مجبور کیا تھا۔
دوسرا واقعہ۔
ستاءیس جنوری کا پورا دن میں نے جکارتا کی سڑکیں ناپتے گزارا تھا۔ واپس ہوٹل پہنچا
تو فورا ہی بستر پہ ڈھیر ہوگیا اور سو گیا۔ پھر میری آنکھ دروازے پہ ہونے والے
کھٹکے سے کھلی۔ کیا کوءی میرے کمرے کا
دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا؟ میں نے کان
لگایا۔ ہاں، کوءی میرا ہی دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹا رہا تھا۔ ساتھ ہی کسی نے 'مسٹر،
اوپن دا ڈور' کہا۔ یہ کون تھا جو بیچ رات میں میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہا
تھا، مجھ سے دوازہ کھولنے کو کہہ رہا تھا مگر مدعا نہیں بیان کررہا تھا؟ میں بستر
میں چپ چاپ پڑا رہا۔ وقت کے ساتھ کھٹکھٹانے کی آواز بلند ہوتی گءی۔ مگر سیکیورٹی
کے نقطہ نظر سے میرے لیے دروازہ کھولنا مناسب نہ تھا، خاص طور پہ اس صورت میں جب
دروازے میں کوءی 'جھانک' [پیپ ہول] نہ تھی اور نہ ہی دروازہ کھٹکھٹانے والا اپنا
نام اور آنے کا مقصد بتا رہا تھا۔ یہ پورا سلسلہ قریبا پانچ سات منٹ چلا اور پھر
بند ہوگیا۔ جاتے قدموں کی چاپ مدھم ہونے پہ میں نے اپنے فون میں وقت دیکھا۔ صبح کے
تین بجے تھے۔ میں کچھ دیر اور سوچتا رہا کہ آخر میرا وہ ملاقاتی کون تھا، اور پھر
رفتہ رفتہ دوبارہ نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ صبح جب میں نیچے گیا تو میں نے
استقبالیہ پہ موجود شخص کو پوری روداد سناءی۔ اس نے ایک ملازم کو میرے ساتھ کردیا
کہ کیمرے کی فوٹیج دیکھ کر معلوم کیا جاءے کہ رات کو میرا دروازہ کھٹکھٹانے والا
شخص کون تھا۔ ہم دونوں اس کمرے میں پہنچے جہاں ہوٹل کے تمام کیمروں کی فوٹیج جمع
ہوتی تھی۔ وقت کا تعین پہلے ہی تھا؛ دوسرے مالے کے اس مخصوص کیمرے کی فوٹیج دیکھی
گءی جس سے میرا کمرہ باہر سے نظر آتا تھا۔ واقعی وہاں دو لوگ نظر آءے۔ دروازہ
کھٹکھٹانے کے بعد جب وہ واپسی کے لیے پلٹے تو ہوٹل کے ملازم نے انہیں شناخت کرلیا؛
وہ ہوٹل ہی کے ملازمین تھے۔ ہم دونوں نیچے استقبالیہ پہ پہنچے۔ وہاں موجود شخص کو
ان لوگوں کے نام بتاءے گءے جو کیمرے کی فوٹیج میں نظر آءے تھے۔ دونوں کی طلبی
ہوءی۔ کچھ ترجموں کے بعد معلوم ہوا کہ غلطی سے میرے کمرے کا نمبر صبح سویرے ہواءی
اڈے کی سواری کے لیے لکھا گیا تھا۔ میرے کمرے سے ناکام ہوکر یہ لوگ نیچے آءے تو
دوبارہ سے مہمانوں کے نام دیکھ کر صحیح
کمرے کی طرف گءے۔ میں نے کسی قدر خفگی کا اظہار کیا کہ کھٹکھٹانے کے ساتھ اگر یہ
کہہ دیتے کہ 'ہواءی اڈے کی سواری تیار ہے' تو میں اندر سے جواب دے دیتا کہ 'تم غلط
کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہو'؛ صرف یہ کہنے سے کہ 'دروازہ کھولو' میں شک میں
پڑگیا تھا۔ خیر بات رفع دفع ہوگءی۔ مگر ایک دفعہ پھر ثابت ہوا کہ سیکیورٹی کیمرے
منکر نکیر کا کام بخوبی کرتے ہیں اور ان سے حساب کتاب کی طلبی میں آخرت کا انتظار
کرنے کی بھی کوءی ضرورت نہیں ہے۔