Tuesday, May 07, 2013

 

جمہوریت یا خلافت




مءی چھ،  دو ہزار تیرہ

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھتیس


جمہوریت یا خلافت


 جیسے جیسے پاکستان کے تاریخی انتخابات قریب آرہے ہیں ویسے ویسے ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہور رہا ہے۔ جہاں ایک طرف تحریک طالبان پاکستان  اے این پی اور ایم کیو ایم کے دفاتر اور امیدواروں پہ حملے کر کے برملا ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے وہیں دوسری طرف مذہبی عناصر کی طرف سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ جمہوریت ایک مغربی انداز حکومت ہے؛ جمہوریت نے مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا اور مسلمانوں کا اصل نظام حکومت خلافت ہونا چاہیے۔ عام حالات میں آپ اس احمقانہ منطق کو ہنس کر ٹال سکتے تھے مگر کیا کیجیے کہ ہوا کچھ یوں چل رہی ہے کہ بعض بظاہر پڑھے لکھے نظر آنے والے افراد بھی اس پروپیگنڈے کو ذہنی طور پہ قبول کررہے ہیں۔ چنانچہ اس دلیل ناتواں کا سنجیدگی سے جواب دینا ضروری ہوگیا ہے۔
اگر بعض مسلمانوں کو جمہوریت صرف اس لیے ناپسند ہے کیونکہ وہ 'مغربی' ہے تو پھر ان لوگوں کو موجودہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر کے غاروں میں بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ آج کی دنیا میں چھپے ہوءے قرآن سے لے کر مولوی کے لاءوڈ اسپیکر تک سب کچھ ہی 'مغربی' ہے۔ جمہوریت کے متعلق اس منطق کو سنتے ہوءے خیال آتا ہے کہ پندرہویں اور سولھویں صدی میں جب یورپ بیدار ہونا شروع ہوا تھا اور عربی کتابوں کا دھڑادھڑ ترجمہ یورپی زبانوں میں ہو رہا تھا تو یورپ میں یقینا چند ایسے نادان بھی ہوں گے جنہوں نے کہا ہوگا کہ اس نءے علم کا یورپی تمدن سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے اور اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے علم کو یکسر نظرانداز کرتے ہوءے یورپ اپنی نءی راہ خود نکالے۔
علم اور ساءنس ایک انسانی تجربہ ہے جس میں ہر روز فکر کے نءے چشمے مل رہے ہیں اور یہ دریا  مستقل پھیلتا جا رہے ہے۔ ہر دور کے لوگوں نے پرانے ادوار کے لوگوں کے علم سے فاءدہ اٹھاتے ہوءے بات کو آگے بڑھایا ہے۔ علم حاصل کرنے میں 'میرا' اور 'تیرا' کیا معنی رکھتا ہے؟  اور یہی نوعیت سماجی تجربات کی بھی ہے۔ انسان مستقل سیکھ رہا ہے کہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ اور اس سے بھی بڑھ کر، دنیا میں دوسرے نمونہ ہاءے حیات کے ساتھ کیسے مساوات سے رہا جاءے۔ ان ہی سماجی تجربات میں نظام حکومت کا تجربہ بھی شامل ہے۔ ہم بہت طویل راستے پہ چلتے ہوءے جمہوریت تک پہنچے ہیں۔  قباءلی طرز حکومت، پھر خدا-بادشاہ، پھر ایسے بادشاہ جنہیں درباریوں اور مذہبی عالموں کی مشاورت حاصل تھی، پھر مشاورت کے اور انداز حکومت جن میں خلافت بھی شامل تھی، اور پھر جدید دور کی جمہوریت جس میں نسل در نسل حکمرانی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، رعایا خود فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کس گروہ کو مختصر عرصے کے لیے حکمرانی کا حق دینا چاہے گی۔
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کو رد کر کے واپس خلافت کی طرف لوٹ جاءیں وہ اس بات کا جواب دینے سے کتراتے ہیں کہ خلافت کے اس نظام میں خلیفہ کس طرح چنا جاءے گا اور کون لوگ خلافت کے اہل ہوں گے۔ اور اس کترانے کی وجہ یہ ہے کہ اس متعلق خود ان لوگوں کے ذہنوں میں وضاحت نہیں ہے؛ رجعت پسند مذہبی عناصر نے ان کی سوچ گنجلک کرنے کے علاوہ انہیں کچھ نہیں دیا۔


Comments:
I do not agree with the Caliphate governance in Pakistan but still
I want to add that a Caliphate rule requires a learned person with knowledge of Islam and a pious character to govern people who select him through unanimous decision.
 
And who will decide if a person has a good knowledge of 'Islam' and is 'pious'? Which 'Islam'? Sunni Islam, Shia Islam, Bohra Islam, Qadyani Islam, or Agha-Khani Islam?
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?