Monday, February 25, 2013

 

اسلامی جمہوریہ نہیں صرف جمہوریہ پاکستان



فروری پچیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھبیس


اسلامی جمہوریہ نہیں صرف جمہوریہ پاکستان



سال بھر پہلے میرا کراچی جانا ہوا تو میں نے گھر میں موجود پرانے البم میں لگی ان تصاویر کو جن کے سفید کنارے وقت گزرنے کے ساتھ پیلے پڑتے جا رہے  تھے، البم سے نکال کر اسکین کروالیا۔ اس طرح یہ تصاویر عددی [ڈیجیٹاءز] ہونے کے ساتھ محفوظ ہوگءیں۔ ان تصاویر میں میرے بچپن کی ایک تصویر ہے جو غالبا میری بسم اللہ کی تقریب پہ لے گءی تھی۔ اس تصویر میں میری بہن اور میں ایک کھلے قرآن پہ انگلی رکھ کر ادب سے بیٹھے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر مجھے خیال ہوتا ہے کہ بسم اللہ کی اس تقریب پہ میری عمر پانچ برس رہی ہوگی۔ اس تقریب کے بعد مجھے مستقل قرآن پڑھایا گیا حتی کہ میں نے قریبا نو سال کی عمر میں قرآن ختم کر لیا۔ یقینا اس موقع پہ آمین کی تقریب بھی ہوءی ہوگی مگر اس تقریب کی کوءی تصویر موجود نہیں ہے۔ قرآن ختم کرنے کے بعد میں گاہے بگاہے قرآن خوانی کی محفلوں میں شرکت کرتا رہا۔ ایسی محفلوں میں قرآن کسی گزر جانے والے کے ایصال ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ قرآن کے تیس پارے کمرے میں ایک میز پہ رکھے ہوتے ہیں۔ قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے جیسے جیسے محفل میں آتے ہیں اس وقت تک نہ پڑھے جانے والے سیپاروں میں سے ایک اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ سارے سیپارے پڑھ لیے جاتے ہیں۔ اگر پڑھنے والے زیادہ ہوں تو قرآن کو ایک سے زاءد بار ختم کیا جاتا ہے اور بہت فخر سے بتایا جاتا ہے کہ اس محفل میں کتنے قرآن ختم ہوءے۔  قصہ مختصر یہ کہ میں نے بہت دفعہ قرآن پڑھا مگر بغیر سوچے سمجھے۔ سچ پوچھیے تو آپ قرآن پڑھنے میں ایسی مہارت حاصل کر سکتے ہیں کہ تیزگام کی  رفتار سے قرآنی آیات پڑھتے رہیں اور اپنے ذہن میں دوسرے ہی معاملات کو حل کرتے رہیں۔ پھر بہت وقت گزر گیا اور میں نے قریبا تیس سال کی عمر میں از سرنو قرآن کو پڑھا۔ اب کی بار میں نے قرآن کو اس علمی جستجو سے پڑھا جس جستجو سے میں نے گیتا پڑھی، یا افلاطون کی ریپبلک اور میکیاویلی کی دی پرنس پڑھی۔ اور قرآن کے اسی مطالعے سے میں نے اس کے متعلق ایک آزاد راءے قاءم کی، کسی مبلغ، کسی مولوی، کسی امام کی تفسیر سے متاثر ہوءے بغیر۔ اس مطالعے سے مجھے یہ بات سمجھ میں آءی کہ قرآن اپنے موضوعات کی وسعت کے حساب سے ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں بہت سے تاریخی واقعات ہیں جن کو بیان کرنے کا مقصد لوگوں کو عبرت دلانا اور ہوشیار کرنا ہے۔۔ تاریخی واقعات کے ساتھ قرآن ایک ہدایت کی کتاب ہے۔ یہ کتاب آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالی کن اعمال کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ کسی بھی مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ یہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ قرآن وہ نسخہ کیمیا ہے جو مسلمانوں کو اپنے پروردگار کے سامنے سرخرو ہونے کے طریقے بیان کرتا ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود قرآن ایک واضح ہدایت کی کتاب نہیں ہے بلکہ عمومی ہدایت کی کتاب ہے۔ مثلا اس ہدایت کے بارے میں غور کیجیے کہ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ ایک بہت واضح ہدایت نہیں ہے کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ظلم کی تعریف کیا ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں کا خیال ہو کہ ظلم کی تعریف سب پہ واضح ہے چنانچہ یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ظلم کیا ہوتا ہے۔ مگر میں اس راءے سے اختلاف کروں گا اور یہ باور کروں گا کہ الفاظ کے معنی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ چودہ سو سال پہلے ظلم کے جو معنی تھے، آج بھی ظلم کے وہ معنی ہوں۔ ایک مثال سے اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ موجودہ عہد کی اخلاقی اقدار کے حساب سے کسی انسان کا دوسرے انسان کو غلام بنا کر رکھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ ان ظالموں کے ذہن کیسے بنتے ہیں کہ وہ اپنے جیسے ایک دوسرے انسان کو بغیر اجرت دیے اپنا غلام بنا کر رکھیں، اس غلام کو اپنی ذاتی ملکیت خیال کریں اور غلام کو کوءی ایسا موقع فراہم نہ کریں کہ وہ مالک کے چنگل سے نکل کر بھاگ جاءے۔ مگر آج کی اخلاقی اقدار کے مقابلے میں چودہ سو سال پہلے کی اخلاقی اقدار کچھ اور تھیں۔ اس وقت غلام رکھنا اور ان کی تجارت کرنا کوءی ظلم نہ تھا۔ اگر اس وقت غلامی کو ظلم سمجھا جاتا تو یقینا قرآن میں جہاں شراب پینے کی ممانعت کی گءی ہے وہیں غلام بنانے اور رکھنے کو بھی ممنوع قرار دیا جاتا۔ مختصرا یہ کہ قرآن ہدایت کی ایک واضح کتاب نہیں ہے۔ اس بات کا بہت امکان ہے کہ اس میں موجود کسی ہدایت کو میں ایک نظر سے دیکھوں اور آپ کے لیے اس کے معنی کچھ اور ہی ہوں۔ اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ ان سب فرقوں کا قرآن ایک ہے۔ وہ جو تیس سیپاروں پہ مشتمل ہے، سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورہ الناس پہ ختم ہوتا ہے۔ مگر ایک قرآن پہ اتفاق کے باوجود ان لوگوں کے نماز پڑھنے کے طریقے مختلف ہیں اور ان کے نزدیک اسلام کے حساب سے زندگی گزارنے کے معنی بھی جدا ہیں۔ اس بات پہ یقینا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے سارے فرقے قرآن کی موجودہ ترتیب پہ متفق ہیں حالانکہ نہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کو کس طرح ترتیب دیا جاءے اور نہ ہی رسول پاک نے اپنی زندگی میں قرآن کو کسی خاص ترتیب سے پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ واضح رہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب اس کی نزولی ترتیب سے بالکل مختلف ہے؛ موجودہ ترتیب رسول پاک کی وفات کے بعد بننا شروع ہوءی اور تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان کے دور حکومت میں اس حتمی شکل میں پہنچی جس شکل میں آج ہم اسے پڑھتے ہیں۔ مختصرا یہ کہ قرآنی احکامات کی عمومی نوعیت کو جانتے ہوءے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ  سکتے ہیں کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد اور خاص طور سے احکامت شریعت سے متعلق مختلف اماموں کی منفرد تشریحات کے بعد دنیا میں کوءی غیر متنازعہ اسلامی ریاست قاءم نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ کی  زندگی میں تو یہ سہولت موجود تھی کہ آپ ان سے کسی بھی اسلامی حکم کی تفصیل معلوم کر سکتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد یہ آسانی ختم ہوگءی۔ اب ہر فرقہ اپنی جگہ اپنے آپ کو بالکل ٹھیک خیال کرتا ہے۔ چنانچہ آج ہر شخص جو کہہ رہا ہے کہ وہ 'اسلامی نظام' چاہتا ہے دراصل اپنی مرضی کا یا اپنے مسلک کے حساب سے اسلامی نظام چاہتا ہے۔ دوسرے فرقوں کے لوگ بھلا ایک خاص مسلک کے حساب سے بناءی گءی "اسلامی" ریاست میں کیوں رہنا چاہیں گے؟
آج پاکستان میں بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہاں موجود مذہبی شدت پسندی کو کیسے ختم کیا جاءے۔ لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت کیسے پیدا ہو؟ جواب بہت مشکل نہیں ہے۔ ہمیں تاریخی طور پہ دیکھنا ہو گا کہ ملک کی سمت کب تبدیل ہونا شروع ہوءی اور ریاست مذہبی معاملات میں کب کودی۔ پاکستان کو اسلام سے نتھی کرنے کا کام محمد علی جناح کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد سے شروع ہوا۔ معاملات بتدریج خراب ہوتے گءے۔ بات اور آگے بڑھی اور ریاست لوگوں کے سچے اور جھوٹے مسلمان ہونے کے متعلق فیصلے کرنے لگی۔ ریاست کا نام بھی تبدیل ہوکر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگیا۔ پھر ریاست اس جھگڑے میں پھنسی کہ کن باتوں سے کس کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ ملک اس طرح کی یا اس طرح کی "اسلامی ریاست" بن جاءے۔ اس کے مقابلے میں خاموش اکثریت وہ ہے جو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد کوءی ریاست غیرمتنازعہ 'اسلامی ریاست' نہیں بن سکتی۔ اس لیے اس سراب کے پیچھے بھاگنا فضول ہے۔ پاکستان میں ریاست کو مذہب سے الگ کرنا ہوگا اور ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے صرف جمہوریہ پاکستان بنانا ہوگا۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?