Monday, February 18, 2013

 

ہزارہ کے نام ایک کھلا خط




فروری اٹھارہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچیس


ہزارہ کے نام ایک کھلا خط

  
اے کوءٹہ کے ہزارہ لوگو، آپ کو ایک عرصے سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سالوں سے یوں ہوتا ہے کہ موٹرساءیکل پہ سوار دو مسلح افراد آتے ہیں اور آپ میں سے چند افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر اطمینان سے فرار ہوجاتے ہیں۔ جب ان ظالموں کی پیاس ایک دو قتل سے نہیں بجھتی تو یہ دھماکہ خیز مواد کا پورا ٹرک آپ کے محلے میں لاتے ہیں اور دھماکہ کر کے کبھی درجنوں اور کبھی سینکڑوں لوگوں کو ایک ساتھ موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ قتل و غارت گری کی ہر واردات کے بعد یہ اطمینان سے کسی اخبار، کسی ٹی وی اسٹیشن کو فون کر کے خون ریزی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ آپ کے قاتل ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جماعت الدعوی جیسی تنظیموں کے لوگ ہیں جو کھل کر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے شیعہ کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تنظیموں کے کارکنوں کو اگر کبھی پکڑ بھی لیا جاتا ہے تو کچھ ہی دنوں میں یہ چھٹ جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ سفاکی سے آپ پہ حملے کرتے ہیں۔
اس ظلم و ستم کے جواب میں آپ انصاف مانگنے کا ہر وہ طریقہ اپنا چکے ہیں جو مہذب لوگ اپنا سکتے ہیں۔ آپ نے صدر پاکستان، وزیر اعظم، چیف جسٹس، جواءنٹ چیف آف آرمی اسٹاف سمیت پاکستان کے تمام باثر لوگوں کو خط لکھے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ ان درخواستوں سے آپ کے حالات میں کیا تبدیلی آءی؟  کچھ نہیں۔ آپ نے ہر قتل کے بعد مظاہرے کیے، دھرنے دیے۔ آپ کی حمایت میں پاکستان کے کءی شہروں میں اور مغربی دنیا کے کءی شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوءے۔  ان مظاہروں سے، ان دھرنوں سے آپ کو کیا ملا؟  کچھ نہیں۔ جنوری دس کے جڑواں دھماکوں کے بعد آپ اپنے سو سے زیادہ پیاروں کی لاشوں کو لے کر شدید سردی میں کوءٹہ کی سڑکوں پہ کءی دن بیٹھے رہے؛ آپ کا مطالبہ تھا کہ نااہل صوباءی حکومت کو چلتا کیا جاءے۔ اپنی معصومیت میں آپ کا خیال تھا کہ صوباءی حکومت کے ہٹتے ہی آپ کے دن پھر جاءیں گے۔ آپ کے مطالبے کی حمایت میں پورے پاکستان میں مظاہرے ہوءے۔ اسلم رءیسانی کی نام نہاد صوباءی حکومت کی چھٹی کر دی گءی اور بلوچستان میں گورنر راج قاءم ہوگیا۔ مگر اس گورنر راج سے آپ کو کیا ملا؟ کچھ نہیں۔ کیا گورنر راج سے آپ پہ ہونے والے حملے بند ہوگءے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس فروری سولہ کے روز آپ پہ جنوری دس کے حملے کے مقابلے میں زیادہ بڑے دھماکہ خیر مواد کے ساتھ حملہ کیا گیا۔ آپ ایک دفعہ پھر احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر آپ اپنے پیاروں کی لاشوں کو لیے سڑکوں پہ بیٹھے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ آپ مرنے والوں کو اس وقت تک نہیں دفناءیں گے جب تک کہ کوءٹہ پاکستانی فوج کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔ یہ مطالبہ اچھا ہے اور اس طرح آءندہ ہونے والی کسی دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری پوری طور پہ پاکستانی فوج پہ ہوگی۔ مگر آپ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ کوءٹہ فوج کے زیرانتظام آنے کے بعد آپ کی زندگیوں میں سکون آجاءے گا۔ اس وقت بھی بلوچستان عملی طور پہ فوج کی تحویل میں ہی ہے۔ اس انتظام سے آپ کو کیا مل رہا ہے؟ کچھ نہیں۔ اور اسی طرح کراچی، لاہور، اسلام آباد، اور دنیا بھر میں موجود اپنے حامیوں کی ہمدردیوں سے؛ یا فلانا سیاست داں کے مذمت کے بیان سے اور ڈھمکانا خان کی پریس کانفرینس سے بھی آپ کو کچھ نہیں ملنے والا۔
وقت آپ سے کچھ اور تقاضہ کر رہا ہے۔ اور وہ تقاضہ یہ ہے کہ آپ پہلی فرصت میں ملک و حکومت و فوج پہ اپنا اعتماد بالکل ختم کردیں۔ یا تو یہ لوگ بالکل نااہل ہیں یا دراصل یہ خود ہی آپ کے دشمنوں سے ملے ہوءے ہیں۔ ان سے دادرسی بالکل بیکار ہے۔ جہاں اس تازہ ترین دھماکے نے سینکڑوں لوگوں کی جانیں لی ہیں وہیں دھماکے کی آواز نے ملک کی تباہی اور آپ کی آزادی کا اعلان کر دیا ہے۔ کسی بھی ریاست کا سب سے بنیادی مقصد ریاست کے اندر رہنے والے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ جو ریاست اس سب سے بنیادی مقصد میں ناکام ہے وہ دراصل اپنے وجود کا حق کھو چکی ہے۔ آپ کی حفاظت میں واضح اور مسلسل ریاستی ناکامی کے بعد اب آپ ایک آزاد قوم ہیں۔ آپ آزاد قوم کی طرح سوچیں اور اپنے تمام انتظامات خود کریں-  شکستہ سیاسی و ملکی ڈھانچے پہ انحصار کرنا چھوڑ دیں۔ وہاں سے آپ کو سواءے ناامیدی کے کچھ نہیں ملے گا۔ اور اپنی اس نءی آزادی کو آپ ریاست سے بغاوت ہرگز خیال نہ کریں۔ آپ کے دشمن ریاست کے ہر قانون کو توڑتے ہوءے اپنی بغاوت کا اعلان بہت پہلے کر چکے ہیں۔ پھر آپ کو شکستہ خوردہ سیاسی نظام سے وفادار رہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اب اپنے لوگوں کے لیے آپ کو وہ سارے کام خود کرنے ہیں جو کوءی بھی مہذب حکومت و ریاست کرتی ہے۔ ان کاموں میں اولین کام اپنے لوگوں کی حفاظت ہے۔
آپ اپنے لوگوں میں سے ایک جماعت چنیں جو ہزارہ افراد کی بہبود کا کام کرے۔ آپ کو محنت سے، رقم خرچ کر کے، اپنے علاقے کے گرد چہاردیواری کھینچ کر، جگہ جگہ کمیرے لگا کر، فاصلے فاصلے سے چوکیاں بنا کر اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ آپ کو اپنے لوگوں میں سے چن کر اپنے علاقے میں پولیس کا انتظام کرنا ہے۔ آپ کو اس طرح سے قلعہ بند ہو کر رہنا ہے کہ آپ کے علاقے میں آپ کی مرضی کے بغیر نہ کوءی گاڑی آسکے اور نہ کوءی فرد۔  آپ کو اپنے ہم خیال شیعہ اور سنی گروہوں سے رابطے بڑھانے ہیں تاکہ ان رابطوں سے آپ اپنے دشمنوں کے گروہوں کے اندر تک پہنچ سکیں اور اپنے خلاف ہونے والی کسی سازش کو پہلے ہی دریافت کر لیں۔ یہ کام مشکل ہے مگر کسی بھی ناکام ریاست میں صرف ان لوگوں کو جینے کا حق ملتا ہے جو ہر مشکل سے گزرتے ہوءے اپنے جینے کا سامان کرتے ہیں۔
 قصہ مختصر اب تنگ آمد، بجنگ آمد کی صورتحال ہے۔ مستقل کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جانے سے بہتر ہے کہ اپنے لوگوں، اپنے علاقے کا انتظام آپ خود سنبھالیں اور اپنی گردن کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینے کی طاقت پیدا کریں۔




Comments:
Hazaras, Please don’t pay too much attention to the media analyses and glib sympathies, to this Khan’s press conference, or that Mir’s analysis on how the previous attack could be prevented. Ask every sympathizer just one simple question: What can you do for us (Hazaras) NOW to prevent the next attack from happening?
 
Imran Khan, Prove that you really believe in living like a lion. Start living in Hazara Town, Quetta, from today.
 
CJ, Prove you really believe your suo moto action will change things for the Hazaras. Move your court to Hazara Town, Quetta.
 
Rehman Malik, Prove you really believe making Hazara areas in Quetta a red zone will provide security to the Hazaras. Start living in your new Red Zone in Quetta.
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?