Wednesday, February 13, 2013

 

بنانا ایٹم بم اور کھانا گھاس



فروری گیارہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چوبیس

  

 بنانا ایٹم بم اور کھانا گھاس



میں نے اب تک بریگیڈیر فیروز حسن خان کی کتاب "ایٹنگ گراس" [گھاس کھانا] نہیں پڑھی ہے۔ کل اس کتاب کی تقریب رونماءی فریمونٹ کے ہوٹل میریاٹ میں ہوءی تھی۔ اس محفل کا انتظام صباحت رفیق اور نوید شیروانی نے کیا تھا۔ 
فیروز حسن خان کی کتاب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہے اور اس موضوع پہ یہ ایک کتاب گراں قدر اضافہ ہے کیونکہ پاکستان کے جوہری پروگرام پہ لکھی بیشتر کتابیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے ہیں۔ یہ کتابیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کچھ ایسے بگاڑ کر پیش کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک لالچی ساءنسدان ہیں جنہوں نے ایٹمی راز مغرب سے چراءے، ان کی مدد سے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنایا، اور پھر اس ٹیکنالوجی کو دوسرے ملکوں کو بیچ کر کماءی کرنا شروع کردی۔  کل کی تقریب میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ شریک ہوءے تھے۔ کافی دیر استقبالیے کا دور چلا جس میں لوگ سموسے اور بولانی کھاتے رہے اور فیروز حسن خان صاحب لوگوں کی خریدی گءی کتابوں کو اپنے دستخط سے سنوارتے رہے۔ کتاب کی تقریب رونماءی کی نظامت صباحت رفیق صاحبہ نے کی۔ انہوں نے 'ایٹنگ گراس' کا ایک جامع تعارف پیش کیا اور صاحب کتاب کا تعارف بھی کرایا۔ فیروز حسن خان صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس کتاب کی تصنیف کا خیال انہیں اس وقت آیا جب ایک موقع پہ انہوں نے پرویز مشرف سے سوال کیا کہ پرویز مشرف کی زندگی میں سب سے مشکل دور کونسا تھا۔ اس وقت پرویز مشرف پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے ہوءے تھے۔  پرویز مشرف کی آسانی کے لیے فیروز خان نے مشرف کے سامنے آنے والے پانچ مشکل مرحلوں کی نشاندہی پہلے ہی کردی۔ یہ پانچ مراحل تھے: کارگل کی جنگ، سنہ اٹھانوے کی فوجی بغاوت، نوگیارہ کا واقعہ اور اس سے متعلق پاکستان پہ امریکی دباءو، سنہ دو ہزار دو میں ہندوستان کا اپنی بیشتر فوج پاکستان کی سرحد پہ لگادینا، اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق سامنے آنے والا اسکینڈل۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے فورا جواب دیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اسکینڈل ان کی زندگی کا سب سے مشکل دور تھا۔ فیروز خان نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پہ ایک ایسی کتاب لکھنی چاہیے جو تمام واقعات کا احاطہ کرے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بالکل شروع سے موجودہ دور تک بیان کرے۔ اپنی تقریر میں فیروز خان نے اعتراف کیا کہ ان کی کتاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اسکینڈل کو خاص جگہ نہیں دے گءی ہے۔ فیروز خان کے مطابق اس موضوع پہ پہلے ہی کءی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لیے انہوں نے اس پہ اور کچھ لکھنا اور اپنی کتاب میں شامل کرنا ضروری محسوس نہیں کیا۔ فیروز حسن خان نے بتایا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام سنہ ترانوے میں فوج کے حوالے کیا گیا تھا اور اس وقت سے فیروز خان اس پروگرام سے وابستہ رہے۔ فیروز حسن خان کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا دور شروع ہوا۔ سوال و جواب کے مرحلے میں ڈاکٹر سید رفعت حسین صاحب کی موجودگی سے بھی استفادہ کیا گیا۔ رفعت حسین پاکستان کے مایہ ناز سیکیورٹی ایکسپرٹ ہیں اور اس وقت جامعہ اسٹینفرڈ میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے فراءض انجام دے رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں فیروز خان نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے سنہ اٹھانوے میں کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کا صحیح فاءدہ نہیں اٹھایا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی نے پاکستان کے دفاع کو ناتسخیر بنا دیا تھا۔ اس صورت میں پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ دفاع سے قریبا بے فکر ہو کر اپنی معاشی ترقی پہ بھرپو توجہ دیتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اس وقت پاکستان اندر سے ایک نہایت کمزور ریاست ہے۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ ایک تعداد کے بعد مزید ایٹمی ہتھیار بنانا بے وقوفی ہے کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کو سنبھال کر رکھنے پہ بڑی رقم خرچی ہوتی ہے اور زیادہ بڑی تعداد میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کو سنبھا کر رکھنا نہایت مہنگا عمل ہے۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ سنہ اٹھانوے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا پاکستانی فوج پہ دباءو تھا کہ پاکستانی فوج براہ راست ان سمندر پار پاکستانیوں سے عطیات وصول کرے اور ان عطیات کی مدد سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھاءے۔ ان لوگوں کو پاکستان کی سویلین حکومت سے زیادہ پاکستانی فوج پہ اعتماد تھا۔  فیروز خان کے مطابق فوج نے یہ پیشکش ٹھکرادی اور کہا کہ عطیات جمع کرنے کا کام سویلین حکومت کا ہے۔ اسی وقت سویلین حکومت نے ڈالر اثاثے مجنمد کیے جس کی وجہ سے زرمبادلہ ملک کے اندر آنے کے بجاءے باہر جانے لگا۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ اس کی برعکس صورتحال ہندوستان میں تھی جہاں ملک سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں کو اپنی حکومت پہ اعتماد تھا اور انہوں نے اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کی مدد کی نیت سے عطیات ہندوستان بھیجے۔

Labels: , , , , ,


Comments:
Hazaras, Please don’t pay too much attention to the media analyses and glib sympathies, to this Khan’s press conference, or that Mir’s analysis on how the previous attack could be prevented. Ask every sympathizer just one simple question: What can you do for us (Hazaras) NOW to prevent the next attack from happening?
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?