Tuesday, February 05, 2013

 

اداس ہونے کے دن



فروری چار، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تءیس




 اداس ہونے کے دن



معروف شاعرہ نوشی گیلانی کی ایک کتاب 'اداس ہونے کے دن نہیں ہیں' کے عنوان سے ہے۔ مجھے اس کتاب کا عنوان اچھا لگتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مختصر سی زندگی میں اداسی میں وقت کھونے کا کیا فاءدہ؟ اور اسی وجہ سے میں بہت محنت سے خوشیاں جھور کر رکھتا ہوں۔ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ساتویں آسمان پہ چلتا رہتا ہوں۔  صبح چھلانگ مار کر بستر سے نکلتا ہوں اور اپنے من پسند کاموں میں جٹ جاتا ہوں۔ نوکری نہیں کرتا کہ میں کسی نوکری میں خوش نہیں رہ سکتا۔  غرض کہ پوری کوشش سے مختصر حاجات والی ایسی زندگی گزارتا ہوں جس میں زیادہ سے زیادہ خوش رہ سکوں۔ مگر کیا کیجیے کہ کبھی کبھی کراچی کا کوءی اخبار آءن لاءن پڑھ لیتا ہوں۔ اگر یہاں امریکہ میں رہتے ہوءے آپ کو پانی اور بجلی کی فراہمی میں کوءی دقت نہ ہو، ٹریفک کے تمیز سے چلنے پہ آپ خوش ہوں، اور یہ سمجھ کر بھی خوش ہوں کہ اس ملک میں جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہتی ہے اس میں تشدد کا کوءی دخل نہیں ہے، مگر چاہیں کہ غم کی ماری دنیا کی طرف بھی ایک نظر کر لیں تو بس تھوڑی دیر کے لیے پاکستان کا کوءی اخبار پڑھ لیں۔ ذرا سی دیر میں غموں کی بوچھاڑ برچھیوں کی تیز انیوں کی طرح آپ کی روح میں پیوست ہو جاءے گی۔  دو دن پہلے جنگ کراچی میں یہ خبر پڑھی۔
کراچی میں فاءرنگ کے مختلف واقعات میں چار افراد ہلاک ہوگءے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان بازار تھانے کی حدود اورنگی ٹاءون سیکٹر ساڑھے گیارہ رحمت چوک کے قریب نامعلوم ملزمان کی فاءرنگ سے ۳۵ سالہ نیر شہاب ولد شہاب الدین ہلاک ہوگیا۔ پولیس کے مطابق مقتول اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑ کر واپس گھر جارہا تھا جب اسے فاءرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ خبر پڑھ کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں سارا دن ایک معصوم بچی کے چہرے کو اپنے ذہن سے نہ ہٹا پایا جو اسکول میں یہ جانے بغیر پڑھ رہی تھی کہ اس کے باپ پہ گولیاں برساءی گءیں ہیں۔ نیر شہاب کو نہ جانے کتنی گولیاں ماری گءیں؟ نہ جانے نیر شہاب زخموں سے تیزی سے خون بہنے کی وجہ سے جاءے واردات پہ ہی مر گیا یا اسے زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا اور اس نے اسپتال جا کر دم توڑا؟ نیر شہاب اپنی بچی کے اسکول سے کتنے فاصلے پہ تھا جب اسے مارا گیا؟ کیا فاءرنگ کی آواز اسکول میں سنی گءی؟  کیا فاءرنگ کی آواز سن کر استانیوں نے جلدی سے کمروں کے دروازے بند کر لیے اور بچے بچیوں کو کلاس سے باہر جانے سے روکا؟ کیا استانیوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کہا کہ 'اللہ خیر کرے، نہ جانے کون ان گولیوں کا نشانہ بنا ہے؟' وہ جو ساحر نے حاکم وقت سے سوال کیا تھا کہ،' یہ کس کا لہو ہے، کون مرا؟'  پھر نیر شہاب کی بچی کو یہ کب بتایا گیا ہوگا کہ تھوڑی دیر پہلے جو فاءرنگ ہوءی تھی اس میں تمھارا باپ مارا گیا ہے؟ اور اب اس بچی کا کیا بنے گا؟ وہ چھوٹی سی بچی اتنا بڑا غم کیسے برداشت کرے گی؟ اور اس بچی کو سمجھانے والے لوگ کن الفاظ میں بچی کو سمجھاءیں گے کہ اس کے باپ کو کیوں مارا گیا؟
کوءی ہے جو ان گھروں میں جا کر پیچھے رہ جانے والوں کا حال احوال معلوم کرے، جن گھروں کے کفیل کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا ہے؟  پھر ٹارگٹ کلنگ کے نہ تھمنے والے واقعات کے ساتھ ساتھ بم دھماکے بھی ہیں۔ ان بم دھماکوں میں ایک ساتھ کتنے ہی خاندانوں کے چراغ گل کر دیے جاتے ہیں۔ کوءی ان کو بھی پوچھنے والا ہے؟ بم دھماکوں کی وارداتوں میں جڑواں دھماکوں کے واقعات سب سے زیادہ موذی ہیں۔ جڑواں دھماکوں میں پہلے ایک نسبتا چھوٹا دھماکہ کیا جاتا ہے۔ جب اس دھماکے کے رد عمل میں مدد کرنے والے لوگ، پولیس کا عملہ، ہنگامی طبی امداد کا عملہ، اور صحافی دھماکے کی جگہ پہ پہنچتے ہیں تو دوسرا بڑا دھماکہ کیا جاتا ہے جس سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔  جڑواں دھماکوں کے واقعات نے لوگوں کے دلوں میں یقینا ایسا خوف بھر دیا ہوگا کہ وہ ایک دھماکے کی خبر سن کر جاءے واردات پہ جانے سے گریز کریں گے کہ نہ جانے کتنے وقفے کے بعد ابھی اس جگہ دوسرا دھماکہ بھی ہونا ہے۔  تو ایسی صورت میں پولیس، طبی امداد کا عملہ، اور صحافی کیا کریں؟ کیا پہلے دھماکے میں مرنے والوں اور زخمیوں کو جاءے واردات پہ ہی چھوڑ دیں؟  کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے واقعات جس تواتر سے ہو رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس ناکارہ ہے اور مجرم بے خوف۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ ہر جرم کی واردات اپنے پیچھے بہت سارے اشارے اور نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔ ان نشانیوں کی مدد سے اگر مجرم تک نہ بھی پہنچا جاءے تو کم ازکم ایسے اقدامات ضرور کیے جاتے ہیں کہ آءندہ اس جیسی واردات ہونا مشکل ہو جاءے۔ مگر کراچی میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تواتر سے بالکل ایک طرح کی وارداتیں ہوتی ہیں اور کوءی نہیں پکڑا جاتا۔ تو پھر ایسے میں کیا کیا جاءے؟  ایسی صورت میں کہ جب حکومت امن عامہ قاءم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام خود کریں۔ اور حفاظت کا یہ انتظام انفرادی طور پہ نہ ہو بلکہ محلے کی سطح پہ ہو۔ جہاں اور اخراجات کرتے ہیں وہاں سرویلینس کیمروں پہ بھی رقم خرچ کریں۔ قاتلوں کا چہرہ کھل کر سامنے آجاءے۔ پہلے مرحلے میں اتنا تو ہو؛ اتنا کرنا  تو شہریوں کے بس میں ہے۔ قاتلوں کو پکڑنے کا اور انہیں سزا دینے کا مرحلہ پھر آگے آءے گا۔

Labels:


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?